حضور، اجازت ہو تو تھوڑی ’’ہارڈ ٹاک‘‘ ہو جائے؟ آپ کی مرضی جواب دیں یا نہ دیں، بس مجھے سوال کی اجازت دے دیں۔ آپ نے تو وعدہ کیا تھا پی ٹی وی کو بی بی سی بنانے کا، پھر ایسا کیا ہوا کہ قومی ٹی وی سرکاری ہو گیا اور اِس بات پر فخر کیا جارہا ہے کہ اب اِس پر اپوزیشن کی کوریج نہیں ہو گی۔ سچ بات ہے، تنقید صرف وہی اچھی لگتی ہے جو دوسروں پر کی جائے۔ 1970 سے بی بی سی سن رہے ہیں۔ بی بی سی ریڈیو، پاکستان میں ہمیشہ سے سنا جاتا ہے مگر جو زور اُس کا 1977 کی پاکستان قومی اتحاد اور 1983 کی تحریک بحالی جمہوریت کے زمانے میں تھا، وہ اب کسی حد تک ختم ہو چکا ہے۔ اِس کالم کا عنوان ’’بی بی سی زندہ باد‘‘ دراصل اُسی زمانے کا نعرہ تھا۔
پرانے لوگوں کو آج بھی رات کا بی بی سی کا مشہور پروگرام ’’سیربین‘‘ یاد ہو گا۔ یہاں 8:15 ہوئے وہاں دکان ہو یا بازار یا آپ گھر میں ہوں، لوگ خبروں اور تبصروں کے لئے بی بی سی سنتے۔ وقت کے ساتھ ہم نے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ 1988 میں انتخابات ہوئے تو محترمہ بےنظیر بھٹو، جناب اسلم اظہر مرحوم کو دوبارہ پی ٹی وی کا چیئرمین لے آئیں۔ اسلم صاحب پی ٹی وی کے بانیوں میں سے تھے۔ ایک بار کہنے لگے ’’جب محترمہ نے مجھے دوبارہ نامزد کیا تو میں نے اُن سے یہ شرط رکھی کہ سرکاری مداخلت نہیں ہو گی۔ میں رات کو دفتر گیا اور نو بجے کا خبرنامہ سننے کے بعد نیوز انچارج کو بلایا اور پوچھا اس میں اپوزیشن کی کوریج کیوں نہیں ہے؟ اُس نے جواب دیا۔ سر، پی ٹی وی ہے؟‘‘۔ کچھ مہینے تو ہمیں یہ کوریج نظر آئی پھر وہی ہوا جو آج تک ہو رہا ہے۔ مداخلت بڑھی تو اسلم صاحب استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے اور ’’سب اچھا‘‘ کی خبریں آنے لگیں۔
میں نے ایک بار محترمہ سے پوچھا، ’’بی بی، کیا آپ پی ٹی وی دیکھتی ہیں‘‘ بولیں، ’’نہیں، وہ تو اپنا ہی ہے‘‘۔ یہی حال اِس ادارے کا میاں صاحب کے دور میں بھی رہا۔ عمران خان صاحب کے سیاست میں آنے کی ایک وجہ پی ٹی وی بھی ہے۔ یہ 1995 کی بات ہے۔ خان صاحب شوکت خانم اسپتال کے سلسلے میں ٹائم چاہتے تھے۔ جواب ملا ’’اوپر سے منع ہے‘‘۔ وہ وزیراعظم سے ملنے گئے۔ محترمہ سے تو ملاقات نہیں ہوئی البتہ آصف زرداری سے ملنا پڑا۔ بس پھر کیا تھا، خان صاحب نے فیصلہ کر لیا کہ سیاست میں آئیں گے اور پی ٹی وی کو بی بی سی بنائیں گے۔ اب وہ وزیراعظم ہیں اور پی ٹی وی ’’سب اچھا‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ رہ گئی بات سابق وزیر خزانہ کی تو ملک کے اندر تو ان کی جے آئی ٹی نہ ہو سکی اور وہ فرار ہو گئے مگر جو کچھ بی بی سی کے ’’ہارڈ ٹاک‘‘ میں ہو گیا، وہ شاید اس سے بھی زیادہ ہے۔ صحافت میں انٹرویو لینے سے پہلے اچھا اینکر پوری طرح تیار ہوتا ہے اپنے مہمان کے بارے میں۔ اسی طرح جواب دینے والے کو بھی پتا ہونا چاہئے کہ ممکنہ سوالات کیا ہو سکتے ہیں۔ ڈار صاحب کو تو یہ بھی نہیں پتا کہ ’’ایمپائر‘‘ صرف یہاں ہوتے ہیں وہاں تو صرف کرکٹ میں ایمپائر کا تصور ہے، سیاست میں نہیں۔
حال ہی میں وزیر اطلاعات جناب شبلی فراز صاحب کا فون آیا۔ بات صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے نئے قانون پر ہوئی۔ وہ چاہتے تھے کہ صحافی کی صحیح تعریف معلوم کریں کیونکہ ان کے بقول یہاں تو ہر شخص ’’صحافی‘‘ بن گیا ہے۔ میں نے کہا، ’’شبلی صاحب، پی آئی ڈی اور صوبائی انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کی لسٹ منگوا لیں، ڈمی اخبارات اور وزارت کے ماتحت چلنے والے اداروں کا جائزہ لے لیں کیونکہ بہتری گھر سے شروع کرنی چاہئے‘‘۔ بہرحال صحافی اور میڈیا ورکرز کے حوالے سے ڈرافٹ پر خاصی حد تک اتفاق ہے مگر صحافیوں کا تحفظ پیچیدہ مسئلہ ہے کیونکہ یہاں کچھ ادارے قانون سے بالاتر ہیں۔ ڈار صاحب کے ساتھ ایک ’’ہارڈ ٹاک‘‘ کیا ہوئی، بی بی سی ہمارے پی ٹی آئی دوستوں کے لئے صحافت کا اعلیٰ معیار قرار پایا۔ ہم تو ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ پی ٹی وی کو بی بی سی بنائو۔ اب ان دوستوں کو کون بتائے کہ یہ پاکستان کے صحافی ہیں جنہوں نے 80 اور 90 کی دہائی میں سب سے پہلے حکمرانوں کی کرپشن کو بے نقاب کیا جو بنیاد بنا عمران خان کے کرپشن مخالف بیانیہ کی۔
مگر اب تھوڑی ’’ہارڈ ٹاک‘‘ موجودہ دور کے اسکینڈل پر کی جارہی ہے تو اچھے اور برے صحافیوں کی فہرست جاری ہو رہی ہے۔ خیر ہمارے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ یہاں جب ’’ہارڈ ٹاک‘‘ ہوتی ہے تو صحافی یا تو لاپتا ہو جاتا ہے اور واپسی پر ’’ٹاک‘‘ کے قابل بھی نہیں رہتا یا مار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں 125 صحافی 9/11 کے بعد سے مارے گئے ہیں۔ ہمیں تو اسحاق ڈار کا ٹاک شو دکھانے کی بھی اجازت نہیں۔ ہاں البتہ صولت مرزا کا ویڈیو بیان پھانسی گھاٹ سے نہ صرف دکھانے کی اجازت تھی بلکہ اصرار بھی تھا، کہا گیا یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔ اب اجازت ہو تو ہارڈ ٹاک نہ سہی کچھ ’’سوفٹ ٹاک‘‘ ہو جائے۔ سیاست دان اور حکمران تو اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہیں اور جو ملک سے بھاگ جائے اس کا بیانیہ کمزور ہو جاتا ہے۔
مگر یہ تو مجھے پوچھنے کا حق ہے کہ 1971 میں اس ملک کے حکمران کو قومی اعزاز کے ساتھ کیوں دفنایا گیا؟ ’’ملک توڑنا‘‘ کیا اعزاز کی بات تھی؟ اس سوال کا جواب میں کس سے لوں کہ اے پی ایس کے معصوم بچوں کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث احسان اللہ احسان کیسے سخت ترین حصار سے فرار ہو گیا؟ دو مئی 2011 کو امریکی فوجی آئے اور آپریشن کر گئے اور ہمیں آج تک اس کمیشن کی رپورٹ کا اسی طرح انتظار ہے جس طرح اوجڑی کیمپ کی رپورٹ کا۔ ہر چیز ملکی اور قومی مفاد کے نام پر ’’بند‘‘ کر دی جاتی ہے۔ سچ ہے تنقید برداشت نہیں ہوتی۔ جس ملک میں یا تو اعلیٰ عدلیہ ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت فیصلے دیتی رہی ہو یا دو چیف جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس سعید الزماں صدیقی کو اپنے گھروں سے نکلنے کی اجازت نہ ہو وہاں کیا ’’ہارڈ ٹاک‘‘ ہو گی؟
0 Comments