All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بھارت اور اسرائیل تنہا ہو رہے ہیں؟

بھارت اور اسرائیل ، واردات سے طریق واردات تک ، فکری اور عملی اعتبار سے جڑواں ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ دونوں ہی اپنے نامہ اعمال کی وجہ سے اس وقت دنیا میں تنہا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مفادات کے تعاقب میں مرتی مارتی اس دنیا میں کچھ کہنا قبل از وقت اور مشکل ہو گا کہ دنیا ان دونوں نسل پرست اور فاشسٹ ممالک کے خلاف کوئی حتمی پوزیشن لے پائے گی یا نہیں تا ہم دنیا کا جو شعور اجتماعی ہے وہ اس وقت ان دونوں ممالک کے مخالف سمت میں کھڑا ہے۔ یہ محض کانگریس کی دہائی نہیں ، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندو شائونزم کے علم بردار مودی نے وہ سارے حجاب اتار دیے ہیں جو کانگریس کی ہنر کاری نے بھارت کو پہنا رکھے تھے اور اس کا اصل چہرہ ان نقابوں میں چھپا پڑا تھا۔ اب سب کچھ دنیا کے سامنے ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ یہ دونوں ممالک امن عالم کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ بھارت جنوبی ایشیا کے لیے ویسا ہی خطرہ ہے جیسا اسرائیل مشرق وسطی کے لیے۔ بھارت ویسا ہی نسل پرست اور فاشسٹ ملک ہے جیسا اسرائیل۔ اور مودی اتنا ہی انتہا پسند ہندو سیوم سیوک ہے جتنا نیتن یاہو انتہا پسند صہیونی۔  دونوں قابض ہیں، دونوں غاصب ہیں۔ دونوں اقوام متحدہ کے قوانین کو پامال کر رہے ہیں۔

عالمی انسانی ضمیر نے کبھی بھی اسرائیل کا ساتھ نہیں دیا۔ جنرل اسمبلی میں اس کے خلاف قراردادوں کا ڈھیر لگا ہے۔ جنرل اسمبلی اسے نسل پرست ریاست قرار دے چکی۔ یہ قرارداد بعد میں فلسطینیوں سے امن معاہدے کے وقت مطالبہ کر کے واپس کروائی گئی۔ جنرل اسمبلی اسے قابض اور غاصب تک قرار دے چکی۔ سلامتی کونسل میں امریکی ویٹو اسے بچا لیتا ہے۔ ورنہ خطے کی صورت حال مختلف ہوتی۔ اب تو اس کے عمومی سرپرست بھی اس پر تنقید کر رہے ہیں۔ یورپی ممالک اس پر تنقید کر رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممالک اپنے داخلی دبائو کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہاں کے عوام اسرائیلی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ٹرمپ کو ہارورڈ یونیورسٹی پر آئے روز پابندیاں لگانا پڑ رہی ہیں کیونکہ وہاں سے اسرائیل کے خلاف آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ کبھی اس کے فنڈز روکے جاتے ہیں اور کبھی ا س پر غیر ملکی طلبہ کو داخلے دینے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔

اسی سے ملتی جلتی صورت حال کا سامنا بھارت کو کرنا پڑ رہا ہے۔ پیاز کی طرح ہندتوا کی تہیں اتر رہی ہیں اور دنیا پر آشکار ہو رہا ہے کہ ہندتوا کتنا زہریلا اور خطرناک تصور ہے۔ بھارت بہت بڑی کنزیومر مارکیٹ ہے اور اس سے دنیا کے معاشی مفادات جڑے ہوئے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود حالیہ جنگ میں دنیا میں کوئی ایک ملک بھی بھارت کے ساتھ نہیں کھڑا تھا ( سوائے اسرائیل کے) ۔ بھارت کی مذمت کرنے والے ممالک تو تھے لیکن دنیا میں کوئی ایک ملک ایسا نہیں تھا جس نے پاکستان کی مذمت کی ہو۔ بھارت کے لیے یہ سفارتی تنہائی کسی صدمے سے کم نہیں تھی۔ چنانچہ اب ہندتوا نے اپنا بوجھ اپوزیشن پر ڈالا ہے کہ ہماری سبکی ہی نہ ہو، اپوزیش کی بھی ہو، ورنہ بعد میں یہ باتیں کر کر کے جینا حرام کر دے گی۔ یہ وہی منظر ہے جو ہم سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں کہ دو دوست موٹر سائیکل پر جا رہے ہوتے۔ انہیں ایک ٹریفک کانسٹیبل روکتا ہے اور وہ وہ بائیک چلانے والے کو ایک تھپڑ جڑ دیتا ہے۔ بائیک چلانے والا جیب سے ہزار روپے کا نوٹ نکال کر کانسٹیبل کو دیتا ہے کہ ایک پیچھے بیٹھے دوست کو بھی لگائو ورنہ یہ بعد میں میرا جینا حرام کر دے گا۔ 

مودی بھی یہی چاہتا ہے کہ جو ذلت ہو رہی ہے اس کا بوجھ کسی طرح اپوزیشن سے بھی شیئر ہو جائے تا کہ وہ بعد میں باتیں نہ کرے۔ بھارت کی یہ سفارتی تنہائی ، ایک مستقل رجحان بھی بن سکتی ہے اگر ہندتوا کی شرانگیزی ختم نہ ہوئی۔ ہندتوا صرف پاکستان کے لیے ہی خطرہ نہیں، یہ سارے جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ ہے۔ بلکہ یہ کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے۔ صہیونی لابنگ گروپوں کی طرز پر ہندتوا نے جو دنیا میں ہندو کونسلز وغیرہ کے نام سے بھارتیوں کی صف بندی کی ہے یہ خود مغربی ممالک کے سماجی ڈھانچے کو ادھیڑ دے گی۔ یہ ایسی خطرناک انتہا پسندی اور فاشزم کی دستک ہے جسے مغرب بھگتے گا اور جلد ہی بھگتے گا۔ کینیڈا تو اس کو بھگت چکا اور اس پر اس کا رد عمل شدید تھا، امریکہ وغیرہ بھی ہندتوا کے فاشزم کے نشانے پر ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ انتہا پسندی محض فکری سطح تک محدود نہیں، یہ دہشت گردی اور سکھوں کی تارگٹ کلنگ تک پھیلی ہوئی ہے۔ پاکستان بھی اسی کا نشانہ ہے۔ پاکستان کے اندر ایسی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں جن کے پیچھے بھارت ہے ا ور اس کے ثبوت موجود ہیں اور دنیا کے ساتھ تسلسل سے شیئر کیے جا رہے ہیں۔ 

بھارت کو اس بار عالمی برادری کی جانب سے مختلف رویے کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس کی وجوہات ہیں۔ اب بھارت میں دہائی دی جا رہی ہے کہ روس نے بھی بھارت کا ساتھ نہیں دیا۔ اسی طرح یہ تجزیے ہو رہے ہیں کہ کیا آئندہ پاکستان سے الجھنے کا مطلب یہ ہو گا کہ چین سے بھی لڑنا پڑے گا۔ ادھر اسرائیل بھی اسی طرح مغربی ممالک کو طعنے اور کسنے دے رہا ہے۔ دونوں فرسٹریٹ ہو رہے ہیں۔ دونوں تنہا ہو رہے ہیں۔ دونوں کی اپنے اپنے خطے میں اجارہ داری خطرے میں ہے۔ عرب دنیا بھلے کسی مسلح تصادم کی طرف بوجوہ مائل نہیں ہے لیکن عالمی سیاست میں اس کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ ترکی کی حیثیت بہتر ہو رہی ہے۔ سعودی عرب نے شام کے لیے امکانات کی دنیا پیدا کر دی ہے۔ قطر اپنا آپ منوا رہا ہے۔ کافی کچھ بدل رہا ہے۔ اس کے نقوش واضح ہونے میں وقت لگے گا لیکن اسرائیل کے لیے، حالیہ قتل عام کے باوجود ، مشرق وسطی پھولوں کی سیج نہی رہا۔ وقت بتائے گا وہ دلدل میں اتر چکا ہے۔ ادھر بھارت کے ساتھ جنوبی ایشیا میں یہی ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش اب اس کی پراکسی نہیں رہا۔ اس نے افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہا لیکن ناکامی ہوئی۔ 

چین اس کے سامنے کھڑا ہو چکا ہے اور چین نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ چین پاکستان اور افغانستان اشتراک کار سے بڑھیں گے ، تصادم سے نہیں۔ اس پیغام کی عملی شکل جلد سامنے آ جائے گی۔ خطے میں کوئی ایک ملک ایسا نہیں جو اس جنگ میں بھارت کے ساتھ کھڑا ہو۔ وقت بدل رہا ہے۔ اس تبدیلی کے ابتدائی نقوش سامنے آ رہے ہیں۔ اور وقت کی یہ عادت ہے وہ ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔

آصف محمود 

بشکریہ روزنامہ 92

Post a Comment

0 Comments