تحریک آزادی کے رہنما , مولانا عبدالحامد بدایونی ؒ

تحریک آزادی کے عظیم رہنما مولانا شاہ محمد عبدالحامد قادری بدایونیؒ جلیل القدر عالم دین، برصغیر کے نامور شعلہ بیان خطیب اور اہم روحانی پیشوا تھے۔ آپؒ نے تحریک خلافت، تحریک پاکستان، تحریک تحفظ ختم نبوت، آزادی فلسطین و کشمیر اور اتحاد عالم اسلام کے سلسلے میں جو بے مثال کردار ادا کیا ہے اس وجہ سے ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ مولانا عبدالحامد بدایونیؒ 1898ء میں بدایوں (بھارت) کے ایک مقتدر علمی اور روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد مولانا عبدالقیوم بدایونی ایک جید عالم اور معروف طبیب تھے۔ مولانا عبد الحامد بدایونیؒ نے مولانا عبدالقادر بدایونی، مولانا محب احمد، مولانا مفتی محمدابراہیم، مولانا مشتاق احمد کانپوری، مولانا واحد حسین اور مولانا عبدالسلام فلسفی سے تعلیم حاصل کی۔ مدرسہ الہیہ کانپور میں زیر تعلیم رہے اس کے بعد بدایوں میں مدرسہ شمس العلوم کے نائب مہتمم مقرر ہوئے۔

مولانا عبدالحامد بدایونیؒ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1914ء میں تحریک خلافت سے کیا۔ برصغیر میں انگریزوں کے داخلے اور قبضے کے وقت مولانا بدایونیؒ کے ایک محترم بزرگ مولانا فیض احمد بدایونیؒ نے علامہ فضل حق خیر آبادی شہید کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف کھلم کھلا تحریک شروع کی اور جہاد کا فتویٰ جاری کر دیا۔ مولانا بدایونیؒ آل انڈیا خلافت کا نفرنس کے رکن اور ڈسٹرکٹ خلافت کمیٹی بدایوں کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ آپؒ نے نہرو رپورٹ کی مخالفت میں مسلمانان ہند کی حمایت کرتے ہوئے عظیم الشان کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اس تحریک میں بھی مولانا حسرت موہانی، مولانا آزاد سبحانی اور مولانا عبدالماجد بدایونیؒ کے ساتھ کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ تحریک خلافت کے بعد آغا خان کی صدارت میں مسلم کانفرنس قائم ہوئی۔ 

مولانا بدایونیؒ اس کانفرنس کے صف اول کے قائدین میں شامل تھے۔ اس کے بعد لندن میں گول میز کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی معرکہ آرا تقریر مولانا محمد علی جوہر کی تھی جو یادگار سمجھی جاتی ہے۔ اس تقریر کو مولانا بدایونیؒ نے خلافت کمیٹی بدایوں کی طرف سے کتابی شکل میں شائع کرایا۔ رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہرکے انتقال کے بعد قائداعظمؒ نے مولانا شوکت علی اور نواب اسماعیل خان سے مشورے کے بعد دہلی میں ہندوستانی مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کو مدعو کرنے کی تجویز پیش کی۔ مولانا بدایونیؒ نے جمعیت علماء یوپی کے قائد کی حیثیت سے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ 

علامہ بدایونی ؒنے یوپی، سی پی، بہار، اڑیسہ، بنگال، آسام، ممبئی، کراچی، سندھ، بلوچستان، پنجاب اور (سابق صوبہ) سرحد کے دور افتادہ مقامات پر قائداعظمؒ کی خصوصی ہدایت پر مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے بھرپور دورے کیے۔ خصوصاً (سابق) صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں خان برادران کے مقابلے میں عظیم الشان کامیابی پر آپ کو فاتح سرحد کا خطاب دیا گیا۔ مولانا عبدالحامد بدایونیؒ مسلم لیگ کانفرنس منعقدہ لکھنؤ 1937ء سے لے کر 1947ء تک مسلم لیگ اور قیام پاکستان کی تحریک میں بھرپور سرگرم عمل رہے۔ آپؒ نے 1940ء میں اقبال پارک لاہور کے اجلاس میں یوپی کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بھرپور شرکت اور قرار داد پاکستان کے حق میں قائداعظم کی زیر صدارت تاریخی تقریر فرمائی۔ 

قیام پاکستان کی تحریک کو تیزتر کرنے کے لیے 1946ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس (بنارس) منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس قیام پاکستان کے سلسلے میں سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس کانفرنس میں تحریک پاکستان کی راہ ہموار کرنے کے لیے اکابر علماء و مشائخ کی جو کمیٹی تشکیل دی گئی علامہ بدایونیؒ اس کمیٹی کے رکن نامزد کیے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ کی دعوت پر مولانا بدایونیؒ آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی آئے اور پھر قائدین کے اصرار پر یہیں کے ہو رہے۔ علامہ سید ابو الحسنات قادری اور مولانا بدایونیؒ کی زیر قیادت ایک وفد نے نوابزادہ لیاقت علی خان سے ملاقات میں ملک کے لیے اسلامی دستور کے متعلق قرارداد کے اعلان پر انہیں آمادہ کیا اورپاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان تجویز ہوا۔ 

کراچی میں 1951ء میں مختلف مکاتب فکر کے 33جید علماء کا ایک عظیم اجتماع ہوا۔ جس میں متفقہ 22 نکات مرتب کیے گئے۔ اس اجلاس میں مولانا عبدالحامد بدایونیؒ اور مفتی صاحب داد خان نے اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے اسلامی دستور کی ترتیب میں بھرپور حصہ لیا۔ مولانا بدایونیؒ کی مصروفیات صرف محراب و منبر تک ہی محدود نہ تھیں۔ آپؒ نے تحریک ختم نبوت میں بھرپور حصہ لیا اور فروری 1953ء سے جنوری 1954ء تک کراچی اور سکھر کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مولانا عبدالحامد بدایونیؒ کا انتقال 21 جولائی 1970ء کو کراچی میں ہوا ۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت سید محمد مختار اشرف سجادہ نشین کچھوچھہ شریف (انڈیا) نے پڑھائی۔ اور وصیت کے مطابق آپ کو جامعہ تعلیمات اسلامیہ کراچی میں سپردخاک کیا گیا۔ دور حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک پاکستان کے ایسے جلیل القدر اکابر کی خدمات عام کی جائیں تاکہ نوجوان نسل ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے۔

ڈاکٹر محمد صدیق خان قادری


 

Post a Comment