All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ارب پتی فاشسٹ, مسلم خاتون اور سرتاج عزیز؟

امریکہ کو اپنا جمہوری استحکام ،سیاسی رواداری ، جغرافیائی و سعت و یگانگت  نسل و رنگ سے بالا تر سیاسی نظام اور عالمی امیج کو بنانے اور منوانے میں کئی عشرے لگ گئے۔ مگر ’’ارب پتی فاشسٹ‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی سنسنی خیز انتخابی سیاست نے صرف چند مہینوں میں نہ صرف اپنی گرینڈ اولڈ پارٹی (G.A.P) کی تنظیم اور قیادت کو اپنا یرغمال بنا لیا ہے بلکہ ری پبلکن پارٹی کے تمام متوازن قائدین کو بھی اتنا بے بس اور سیاسی طور پر فیصلوں کی قوت سے وقتی طور پر محروم کر رکھا ہے۔

 صرف یہی نہیں بلکہ ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار اور پارٹی قیادت بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کی انتخابی سیاست میں پیدا کردہ ’’زہریلے ماحول‘‘ سے متاثر ہوئی ہے۔ ری پبلکن صدارتی امیدوار اور اہم ریاست اوہائیو کے گورنر جان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس زہریلے سیاسی ماحول ‘‘ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پارٹی سے نامزدگی حاصل کر پائے یا ناکام رہے۔وہ صدر کا الیکشن جیتیں یا ہاریں۔ انہوں نے امریکہ میں نسلی ،جغرافیائی ،ثقافتی اور سیاسی منافرت کے جو بیج بو دیئے ہیں وہ الیکشن کے بعد بھی آنے والے وقت میں اپنا اثر دکھاتے رہیں گے۔

ہمارے محترم بزرگ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز تو واشنگٹن میں امریکی میڈیا کو کمال بے نیازی سے ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات اور انتخابی وعدوں کو پاکستانی سیاسی انتخابی وعدے، سمجھ کر یہ تبصرہ کر کے اسلام آباد چلے گئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگر صدارتی الیکشن جیت بھی گئے تو پاکستان پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا ۔ کیونکہ الیکشن کے بیانات اور وعدوں سے عملی حقیقت مختلف ہوتی ہے۔
شاید سرتاج عزیز، امریکہ کی انتخابی سیاست میں آنے والے ’’ٹرمپ سونامی‘‘ کی اب تک تباہ کاریوں، مسلم دنیا اور امریکہ کے مسلمانوں کے لئے خوف وہراس اور صدر بن کر مسلمانوں کا داخلہ بند کرنے اور طوفانوں سے دوچار کرنے کی پیشگوئی پر مبنی بیانات پر توجہ نہیں دے سکے۔ سرتاج عزیز میرے بڑے محترم و مشفق اور کرم فرما ہیں مگر ان کا ٹرمپ کے حوالے سے یہ بیان امریکہ کے مسلمانوں بالخصوص پاکستانی امریکیوں کیلئےحیران کن اور حقیقت سے لاتعلق بیان ہے۔ سرتاج عزیز نے تو کم از کم یہ بیان دے ڈالا ہے ورنہ مسلم دنیا کے حکمراں تو خوف سے زبانیں گنگ کر کے خاموشی سے اپنے اقتدار و آمریت کی مدت بڑھانے کیلئے مصروف ہیں۔

ہاں! اپنے مفادات حکمرانی کا تقاضا ہو تو پھر ہمارے مسلمان حکمران اپنے سفارت خانوں کے ذریعے امریکی مسلمانوں کے قائدین کو اپنی پسند نا پسند اور ترجیحات سے مطلع کر کے ووٹ ڈالنے کیلئے دبائو ڈالتے ہیں۔ بش جونیئر کے پہلے صدارتی الیکشن میں یہی کچھ تو ہوا۔ امریکہ میں آباد مسلمان جائز طور پر ٹرمپ کی سیاست سے پیدا شدہ ماحول میں پریشان ہیں لیکن انہیں منظم ہو کر اپنی نئی نسل کی خاطر آگے بڑھ کر منظم انداز میں ایک اقلیت کے طور پر بڑی ذہانت سے اپنا رول ادا کرنا ہو گا ورنہ وہ ٹرمپ کی متعصبانہ سیاست کا پہلا شکار ہوں گے۔ ابھی تک امریکہ میں مسلمان قیادت منظم نہیں ہو پائی۔ وقت کم اور چیلنج تاریخی اور بہت سخت ہے۔

اب اپنے محترم مشیر امور خارجہ اور قارئین کی توجہ کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایسے بیانات کا مختصر ذکر جو انہوں نے پاکستان مسلم دنیا اور امریکہ کے مسلمانوں کے حوالے سے دیئے ہیں۔ سائوتھ اور مڈویسٹ کی امریکی ریاستوں بشمول ’’بائبل بیلٹ‘‘ کے علاقوں میں ٹرمپ کی مقبولیت اور کامیابی کی ایک بڑی وجہ ٹرمپ کے یہ بیانات بھی ہیں مذہبی انتہا پسند مبلغوں ،نسلی انتہا پسند اور امیگرینٹ آبادی کے مخالفین کی ٹرمپ کے لئے پرجوش حمایت کا ریکارڈ اور مظاہرہ دنیا کے سامنے ہے۔

 لہٰذا ان بیانات کو محض انتخابی سیاسی نعرے سمجھ کر نظر انداز کر نا مناسب نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے بارے میں کہہ چکے ہیں:
1۔ پاکستان کی امداد بند کی جائے تاوقتیکہ پاکستان اپنا ایٹمی اسلحہ ختم نہ کر دے۔
2۔ وہ (پاکستانی) ہمارے دوست نہیں ہیں۔ بہت سے دہشت گرد پاکستان میں ہیں۔
3۔ پاکستان ایک غیر محفوظ کھلا ٹارگٹ ہے.
4۔ امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوجیں مزید عرصےکیلئے رکھنا ہوں گی کہ اس کے ساتھ ہی ایٹمی ہتھیاروں والا پاکستان ہے۔ اور ایٹمی ’’ہتھیار گیم‘‘ کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
5۔ پاکستان کو ’’چیک‘‘ کرنے کے لئے بھارت سے تعاون لیا جا سکتا ہے۔ پاکستان ایک ’’سیریس پرابلم‘‘ ہے۔
6۔ بھارت بھی ایک ایٹمی ملک ہے مگر اسکی فوج مضبوط ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں ٹرمپ کے متعصبانہ بیانات کی بھرمار کا علم سب کو ہے انہوں نے نہ صرف امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند کرنے کا انتخابی وعدہ کر رکھا ہے۔ بلکہ اب اس میں شدت پیدا کرنے کے لئے امریکہ میں مسلمانوں کے لئے خصوصی شناختی کارڈ پہننے کی تجویز، بلا امتیاز دہشت گرد قرار دینے کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔

حقائق اور ریکارڈ یہ ہے کہ امریکہ میں آباد مسلمان اقلیت وہ کمیونٹی ہے جس میں کرائم کی شرح سب سے کم، تعلیم سب سے زیادہ اور خواتین میں بھی تعلیم کی شرح سب سے زیادہ ہے معاشی طور پر بھی یہ خوشحال اور پرامن کمیونٹی ہے۔ ٹرمپ کے تعصب کا اندازہ ان کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ فلپائن کے صوبہ مورو میں1909میں متعین امریکی جنرل بلیک جیک پرشنگ کے حوالے سے ایک ایسا اشتعال انگیز واقعہ سنایا ہے جس سے خود امریکی مورخ واقعہ انکاری ہیں مگر ٹرمپ کا تعصب ملاحظہ ہو کہ وہ اس غیر مصدقہ واقعہ کو کئی بار عوام میں بیان کر کے اپنی مسلم دشمنی کا اپنے سر پرستوں کو یقین دلا رہے ہیں۔

امریکی جنرل جان جوزف (بلیک جیک) جو فلپائن کے صوبہ مورو کے گورنر بھی رہے جہاں فلپائنی مسلمانوں کی بڑی آبادی تھی اور ہے مسلمانوں کی جانب سے یورش کا جواب دیتے ہوئے 50 مسلمانوں کو گرفتار کیا اور اپنے فائرنگ اسکواڈ کو حکم دیا کہ وہ اپنی پچاس گولیاں سو ر کے خون میں ڈبو کر نکالیں اور پھر ان گولیوں سے فائرنگ کر کے 49 مسلمانوں کو شہید کیا اور ایک مسلمان کو زندہ چھوڑتے ہوئے کہا کہ وہ واپس جا کر یہ واقعہ مورو کے مسلمانوں کے سامنے بیان کرے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پھر اگلے 25 سال تک مورو کے مسلمانوں کو جرات نہ ہوئی۔ حالانکہ مورو کے مسلمانوں کو سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید دوم نے سولو مورو کو خط لکھا تھا کہ وہ امریکیوں سےمزاحمت نہ کریں حالات مسلمانوں کے حق میں نہیں۔ سولو مورو نے سلطان کی بات مان کر ڈپلو میسی کو اپنایا۔

مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ جو کچھ کرنے کا اعلان کر رہا ہے وہ عرب، حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کی بجائے خوف سے آنکھیں بند، ذہن مفلوج اور زبان گنگ کرنے کا کام کر رہا ہے۔ رہی بات امریکہ کے مسلمانوں کی تو ان کے پاس صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ پرامن اور مہذب انداز میں امریکہ کے سیاسی نظام کا حصہ بن کر قانون کا پابند شہری ہو کر ایک اقلیت کے طور پر اپنی شناخت اور موقف پر ڈٹے رہیں۔

ٹرمپ کے پیدا کردہ اس’’زہریلے سیاسی ماحول‘‘ میں خود الیکشن لڑنے کے خواہشمند مسلمان اس بار دیگر اقلیتوں مثلاً لاطینی، افریقی اور دیگر اقلیتوں سے تعاون بڑھائیں، ان کے امدادی اداروں سے تعاون اور مشترکہ ایجنڈا اپنا کر دوسروں کا اعتماد بھی حاصل کریں اور اپنی نئی نسل کے لئے مواقع تیار کریں یہ وقت خود میدان میں آگے آ کر کسی سیاسی جنگ کیلئے مناسب نہیں بلکہ خود کو امریکی معاشرے اورسیاسی نظام کا ایک باعزت حصے کے طور سے منوانے کا ہے۔ اسی امریکہ میں ایک بہت بڑی اکثریت ٹرمپ کے ارادوں، بیانات اور فلسفہ کی سخت مخالف ہے۔

سائوتھ کیرولینا میں ٹرمپ کے جلسے میں ا سکارف پہن کر ’’سلام میں پرامن ہوں‘‘ کے نعرے کی ٹی شرٹ کے ساتھ اپنی مسلم شناخت اور مسلمانوں سے امتیازی سلوک کے خلاف بیج لگا کر شریک ہونے والی 56 سالہ مسلم خاتون روز حمید کو سلام کہ جب اسے ٹرمپ کے سیکورٹی والوں نے بلا جواز ہال سے نکالا تو وہ خاموش اور پرامن رہی اور پھر امریکی میڈیا میں انتہائی باوقار انداز سے اپنا موقف پیش کیا اسی طرح شکاگو میں ٹرمپ کی آمد کے خلاف ریلی میں چند مسلمان بچیوں اور نوجوانوں نے بلا اشتعال جس طرح خود کو ہزاروں کے اس اجتماع میں نمایاں اور باوقار رکھا اور اس کا جو اثر ہوا ہے وہی امریکہ کے مسلمانوں کیلئے راستہ ہے ۔ ان پرامن نوجوانوں کو بھی سلام۔

عظیم ایم میاں
 بشکریہ روزنامہ جنگ  
 

 

Post a Comment

0 Comments