فرض کریں آپ کراچی میں رہنے والی چوتھی نسل کے بنگالی ہیں۔ زیادہ تر امکان ہے کہ آپ غریب ہیں لیکن ہر غریب کی طرح آپ کو بھی بچے پڑھانے کا بہت شوق ہے۔ فرض کریں کہ آپ کچھ خوش قسمت بھی ہیں کیونکہ نہ صرف آپ کی بچی کو پڑھنے کا بہت شوق ہے بلکہ اسے ’سٹیزن فاؤنڈیشن‘ نامی ادارے کے سکول میں مفت تعلیم بھی مل رہی ہے۔ بچی ہر کلاس میں ٹاپ کر کے آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر، پائلٹ یا مارک زکربرگ بننے کے خواب دیکھتی ہے۔ آپ بھی اسے خواب دیکھنے سے نہیں روک سکتے اور بچی یہ خواب دیکھتے دیکھتے نویں جماعت میں پہنچ جاتی ہے اور وہاں اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ دسویں جماعت کا بورڈ کا امتحان نہیں دے سکتی کیونکہ آپ کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔
آپ کے ماں، باپ بھی یہیں پیدا ہوئے تھے، ان کے ماں باپ بھی یہیں پلے بڑھے تھے۔ آپ کے والد کے پاس شناختی کارڈ بھی تھا۔ آپ کے پاس بھی اپنا برتھ سرٹیفیکیٹ، بچی کا برتھ سرٹیفیکیٹ موجود ہے لیکن نادرا بنی، کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ آئے تو حکومت نے اپنے ہی بنائے ہوئے شہریت ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ کو سرکاری ریکارڈ سے غائب کر دیا۔ آپ کی بچی کے خواب نویں جماعت کے ساتھ دم توڑ جائیں گے وہ کبھی دسویں جماعت کا امتحان نہیں دے سکے گی۔ فرض کریں آپ ایک بنگالی نوجوان ہیں۔ آپ کو کچھ کرنا نہیں آتا، بس گاڑی چلانی سیکھ لی تھی۔ کراچی ظالم شہر ہے مگر اتنا ظالم بھی نہیں۔ سرکاری ٹرانسپورٹ نہیں ہے تو پرائیوٹ بسوں پر چلتا ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں سے بُرا ڈرائیور بھی آتا ہے تو 20 ہزار کی نوکری پکڑ لیتا ہے۔
آپ تو یہیں کی جم پل ہیں، شہر کے راستے بھی جانتے ہیں لیکن ڈرائیور کی نوکری کے لیے ڈرائیونگ لائسنس چاہیے اور اس کے لیے کیا چاہیے؟ جی ہاں شناختی کارڈ۔ آپ کے والد کے پاس تھا، آپ کے پاس نہیں ہے۔ کراچی میں ڈرائیور بننے کا خواب دیکھنا بند کر دیں۔ فرض کریں آپ چار بچوں کی ماں ہیں اور ان کے سر پر چھت رکھنے کے لیے، ان کا پیٹ پالنے کے لیے کسی سیٹھ کے گھر میں جھاڑو لگاتی ہیں۔ سیٹھ مہربان ہے، ایک وقت کا کھانا دیتا ہے، صرف 10 گھنٹے کام لیتا ہے اور اتوار کی چھٹی بھی دیتا ہے لیکن تنخواہ کم دیتا ہے۔ آپ نے محلے والوں سے سنا ہے کہ حکومت نے بےنظیر کے نام پر ایک پروگرام رکھا ہے جس میں آپ جیسی محنت کش خواتین کو ہر مہینے چند ہزار روپے ملتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ یہ افواہ نہیں ہے۔
آپ کی جاننے والیوں کو، سہیلیوں کو یہ پیسے مہینے کے مہینے ملتے ہیں۔ وہ چند ہزار روپے جن سے بچوں کے جوتے خریدے جا سکتے ہیں، مہینے میں ایک بار چکن کھایا جا سکتا ہے۔ وہ چند ہزار روپے آپ کو نہیں مل سکتے کیونکہ آپ بنگالی ہیں، آپ کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ آپ کے والد کے پاس تھا۔ آپ کو اندازہ ہے کہ اس ملک کے ساتھ ایک سانحہ ہوا تھا، آپ کی پیدائش سے پہلے بنگالیوں نے لڑ کے اپنا ملک بنا لیا تھا، بنگلہ دیش۔ لیکن جب وہ ملک بنا تو آپ کا باپ پاکستانی تھا اور یہاں کراچی میں کیکڑے پکڑتا تھا۔ فرض کریں کہ آپ بنگالی ہیں اور کراچی میں رہتے ہیں اور کوئی آپ سے پوچھے کہ کراچی میں کتنے بنگالی رہتے ہیں تو آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ 20 لاکھ یا 30 لاکھ۔ آبادی کی گنتی کرنے والے بھی آپ کو بھول چکے ہیں۔
ان کو یہ بھی یاد نہیں کہ آپ وہ بنگلہ دیشی نہیں ہیں جو 1980 کی دہائی میں پورا انڈیا پیدل چل کر روزی روٹی کی تلاش میں کراچی پہنچے تھے۔ اب وہ بنگلہ دیش اتنی ترقی کر چکا ہے کہ ہمارا سیٹھ رہتا تو کراچی میں ہے لیکن فیکٹری ڈھاکہ کے مضافات میں ٹیکس فری زون میں لگاتا ہے۔ فرض کریں آپ کراچی میں رہنے والے بنگالی ہیں تو آپ نے زندگی میں صرف ایک دفعہ خواب دیکھا تھا جب عمران خان کراچی آیا تھا اور جلسے میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ آپ لوگوں کو شہریت ملے گی۔ ویسے تو پورے پاکستان کو عمران خان سے عشق ہے لیکن اس تقریر کے بعد جتنا عشق بنگالیوں کو عمران خان سے ہوا، جتنی دعائیں اس کے لیے بنگالیوں کے دلوں سے نکلیں، وہ عمران خان کو پہلے کبھی نہ ملی ہوں گی۔
ابھی بھی کراچی کے بنگالی عمران خان سے امید لگا کر بیٹھے ہیں۔ ساتھ خوف بھی ہے کہ ان کے وزیر اور مشیر وہ پرانا مشورہ نہ دے دیں کہ یہ کراچی کے بنگالی کیا کر لیں گے، آگے سمندر ہے۔ کاش عمران خان ایک دفعہ مچھر کالونی آئے اور دیکھے کہ آگے سمندر ہے والی منطق کتنی لایعنی ہے۔ ہم تو پہلے ہی سمندر پر کچرا ڈال کر اس پر گھر بنا کر بیٹھے ہیں۔ فرض کریں آپ بنگالی ہیں۔ آپ کی نویں جماعت تک ٹاپ کرنے والی بیٹی، ڈاکٹر، پائلٹ، مارک زکربرگ بننے کا خواب دیکھنے والی بیٹی اب گھر میں بیٹھی ہے اور اس کی شادی ہونی ہے۔ بیٹی سگھڑ ہے، دسویں جماعت میں ٹاپ نہ کرنے کا غم پتا نہیں بھول سکی ہے یا نہیں لیکن اس کا ذکر نہیں کرتی۔ محلے کے مدرسے میں یا سکول جا کر بچوں کو پڑھا بھی آتی ہے۔ اب اس کا رشتہ دیکھنے آئیں گے تو بیٹی چائے بھی پیش کرے گی اور تکلفات کے بعد رشتہ لانے والے پوچھیں گے، بیٹی کا شناختی کارڈ ہے؟
0 Comments