All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ایک نئی دھمکی

سچے پاکستانیوں کو تو بھارت کی پروا نہیں۔ وہ بھارت کے خلاف تین چار باقاعدہ جنگیں لڑ چکے ہیں اور انھوں نے بھارت کی جواں مردی کو اچھی طرح دیکھ لیا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے حکمران بھارت کی دلجوئی میں مصروف رہتے ہیں یا پاکستانیوں کے سینے پر مونگ دلتے رہتے ہیں۔

وہ بھارت کو خوش رکھنے کے لیے پاکستانیوں کے ساتھ کوئی سلوک بھی کر سکتے ہیں اور آلو پیاز کی سیاست اور تعلقات پر بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بھارت کے ایٹمی بموں کے بارے میں ہم کچھ کہیں تو یہ ایک متعصبانہ بات ہو گی لیکن جب امریکا جیسے ملک سے کوئی خبر آتی ہے تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہوتا۔

ایک امریکی تھنک ٹینک نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان بھارت سے بہت آگے نکل گیا ہے اور آیندہ دس برسوں میں پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہو گا۔ امریکا اور روس کے بعد پاکستان کے ایٹمی ہتھیار 120 ہیں جب کہ بھارت کے پاس ایک سو۔ پاکستان ہر سال جس قدر ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے اس کے مطابق بھارت بہت پیچھے چلا گیا ہے اور پاکستان کے مقابلے میں پیچھے ہی رہے گا بلکہ پاکستان تو دنیا کے بڑے ایٹمی ملکوں میں شامل ہو رہا ہے۔

یہ چند سطریں محض پاکستانی حکام اور رؤساء کو حوصلہ دلانے کے لیے نقل کر دی ہیں ورنہ سچے پاکستانی تو وہ لوگ ہیں جو بے تیغ بھی لڑا کرتے ہیں اور معافی چاہتا ہوں ان الفاظ کے لیے کہ ہندو کی مجال نہیں کہ وہ کسی برتر اسلحہ کے بعد ہمارے ساتھ جنگ کر سکے اس کے دست و بازو ہمارے ساتھ جنگ نہیں کر سکتے صرف اسلحہ لہرا سکتا ہے اور جب ہمارے پاس اسلحہ اعلیٰ ترین درجہ کا ہو تو بھارت ہمارے سوداگروں اور تاجروں کو قابو کر سکتا ہے جو جنگ تو بڑی بات ہے کسی ملک کی حکومت بھی نہیں چلا سکتے اس لیے عام پاکستانی جن کا اوڑھنا بچھونا پاکستان ہے وہ بھارت سے خالی ہاتھ بھی جنگ پر تیار رہتے ہیں۔ کجا کہ ان کے پاس بھارت سے اعلیٰ ترین درجے کا موجود ہو ایسا اسلحہ جو مہا بھارت کو آن واحد میں بھسم کر ڈالے۔

پاکستان کی طاقت اگر اس ملک کے مسلمان شہری ہیں اور اعلیٰ ترین اسلحہ ہے لیکن اس ملک کو اپنے اندر سے بھی کئی آزار لاحق ہیں اور ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آپ نے لندن میں مقیم پاکستانیوں کی پاکستان دشمن تقریریں سن لی ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ ہمارے حکمران کس طرح ان بڑھکوں کو ہضم کر گئے ہیں اور اب برطانیہ کی حکومت سے عرض کر رہے ہیں کہ مہربانی کر کے آپ اپنے ان مہمانوں اور اپنے نئے شہریوں کو ہمارے خلاف تقریریں کرنے سے روک دیں۔
ہمیں ڈر لگتا ہے۔ اس ڈر کا نتیجہ مسلسل نکل رہا ہے اور اب جناب آصف علی زرداری صاحب کے ترجمان نے کہا ہے کہ اگر زرداری صاحب کے خلاف کسی کارروائی کی کوشش کی گئی تو یہ ایک نئی جنگ کی ابتداء ہو گی۔ ہمارے مہربان جناب خورشید شاہ صاحب نے کہا ہے کہ اگر آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالا گیا تو یہ جنگ کی ابتدا ہو گی۔ ہم وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے پر تیار ہیں کہ وہ پاکستان کو رکھنا چاہتے ہیں یا اسے غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔
کسی مشہور پاکستانی کی طرف سے پاکستان کو جنگ کی یہ نئی دھمکی ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور پاکستان کے بڑے لوگوں نے وطن عزیز کو اس قدر کمزور اور لاچار کر دیا ہے کہ جو بھی اٹھتا ہے وہ اپنی کسی ناکامی کا غصہ پاکستان پر نکالتا ہے اور اس ملک کو ختم کرنے کی بات کرتا ہے۔ سیدھی سادی بات تو یہ ہے کہ ایسی زبان استعمال کرنا ملک کے خلاف غداری کے سوا اور کچھ نہیں۔ انتظامیہ فوج کی طرف سے حوصلہ پا کر بڑے بدعنوانوں پر ہاتھ ڈال ہی ہے اور چونکہ بدعنوانی میں سرفہرست یہ بڑے لوگ ہیں جنہوں نے رشوت اور کرپشن کی حد کر دی ہے۔

اس لیے خطرہ پیدا ہوا ہے کہ ان بڑوں کے بڑے بھی کسی زد میں نہ آ جائیں چنانچہ پارٹی کے نمبر دو لیڈروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے بڑوں کے خلاف سرکاری کارروائیوں کی مزاحمت پر تیار ہو جائیں چنانچہ شاہ صاحب کی طرف سے زرداری کے خلاف کسی کارروائی کو جنگ قرار دیا ہے۔ یعنی مزاحمت کا آخری درجہ۔ جہاں تک میرے جیسے ایک عام پاکستانی کا تعلق ہے وہ نہیں سمجھتا کہ زرداری پر ہاتھ ڈالا جائے گا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نمبر دو قسم کے سابق حکمرانوں سے انتظامیہ فارغ ہو گی تو آگے بڑھے گی اور ان نمبر دو کی تعداد ماشاء اللہ بہت زیادہ ہے۔

کوئی اینٹ اٹھائیں تو نیچے سے ایک سابق حکمران نکلتا ہے۔ کمال ہے کہ یہ لوگ وزیر اعظم تک رہے ہیں۔ اس سے زیادہ وہ کیا چاہتے تھے لیکن ہوس کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے چھوٹی بڑی کسی قسم اور درجے کی بدعنوانی کو بھی مایوس نہیں کیا اور اب جن لوگوں کے نام اخباروں میں چھپ رہے ہیں وہ وزیر اعظم بھی تھے اور ان کے نمبر دو بھی۔ عام وزیروں کا تو شمار ہی نہیں ہے۔ جتنی تعداد میں وزیر تھے اللہ ماشاء اللہ اللہ اتنی ہی تعداد میں رشوت خور بھی ہیں میں نے پاکستان کے بانی اور قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں جتنا کچھ پڑھا ہے اس کو سامنے دیکھیں تو یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مستقل نہیں تو وقتی طور پر پاکستان کی تحریک تو موخر کر دیتے۔

اس قدر صاف ستھرا آدمی اتنے گندے اور غلیظ لوگوں کی حکمرانی کے لیے پاکستان نہیں بنا سکتا تھا البتہ قائد کی زندگی کی ایک بات ایسی دکھائی دیتی ہے کہ ان کے تجربے مشاہدے اور رائے کے مطابق اگر اس خطے میں پاکستان نہ بنا تو ہندو یہاں آباد مسلمانوں کو قتل کر دیں گے اور اس کا اظہار انھوں نے قاہرہ کی ایک تقریر میں کر دیا تھا۔ بہر کیف اس پاکستان کے کرپٹ حکمرانوں کو پکڑا جا رہا ہے تو اس پر یقین نہیں آتا۔ اگر یہ واقعہ ہے اور یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے تو پھر جنگ کی دھمکی درست معلوم ہوتی ہے۔

عبدالقادر حسن
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Post a Comment

0 Comments