All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان ٹیلی ویژن کے 50 سال.....


پاکستان ٹیلی ویژن نے مزاحیہ ڈراموں و پروگراموں کو جس شگفتہ مزاح کے ساتھ پیش کیا اُنھیںآج بھی ناظرین نہیں بھول پائے۔ ان میں سب سے پہلے کمال احمد رضوی کے لکھے ہو ئے ڈرامے "الف نون" کا ذکر آتا ہے جس کے مرکزی کردار میں کمال احمد رضوی کے ساتھ اداکار ننھا نظر آئے ۔70ء کی دہائی میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد 80ء کی دہائی کے آغاز میں دوسری دفعہ پھر نشر کیا گیا۔"سونا چاندی"، " آنگن ٹیڑھا" ،" خواجہ اینڈ سنز" اور" گیسٹ ہائوس" اگلے اہم نام ہیں۔ اس دوران مصنف و شاعر اطہر شاہ خان عرف"جیدی " نے مزاحیہ ڈراموں سے اپنی پہچان بنائی۔ "ففٹی ففٹی"مزاحیہ خاکوں پر مبنی پروگرام 1979ء میں نشر کرنا شروع کیا گیا اور ایک مدت تک وہ ناظرین کا پسندیدہ کامیڈی پروگرام کہلایا۔

 انگلش فلمیں ماضی میں پی ٹی وی کی نشریات کا اہم حصہ رہی ہیں ۔ 70ء سے 90ء تک کی دہائیوں کے دوران 8سے 9بجے کے درمیان تقریباً جتنی بھی انگلش فلموں کی سیریز پیش کی جاتی رہی ہیں وہ اُس وقت کے ناظرین کو آج بھی یاد ہیں ۔جن میں سے چند کے نام قابل ِذکر ہیں مثلاً " سٹار ٹریک"," دی ایونجرز" ،ہالی وُڈ کے مشہور اداکار اور جیمز بانڈ کے ایک مشہور ہیرو ـ"راجر مور" کی " دی سینٹ" جسکے ٹائٹل کے کارٹون کی بھی اپنی شہرت رہی اور اُس دور کے ہر طالب َعلم نے اُسکو اپنی کاپی کے صفحہ پر بنانے کی کوشش کی،" دی مین فارم انکل" ،"آئرن مین" ،" سکس ملین ڈالر مین"،"بائیونک وومن" ، "چپس"،"نائٹ رائیڈر" اور " ائیر وولف" ۔ 30منٹ دورانیہ کی مزاحیہ یادگار انگریزی فلموں میں"ہیرز لوسی"، جادُو سے بھرپور " بی ویچڈ"اور کامیڈی جاسوسی "گیٹ سمارٹ" مقبول ترین رہیں۔ 

  سٹیج شو کا ذکر ہو تو " ضیاء محی الدین شو"ہی سر فہرست نظر آئے گا جو ضیاء محی الدین کی میزبانی کے دوران اُنکے جملے " لگے بھی ٹھیکا" سے عروج پر رہا ۔یہی شو مشہور ِزمانہ اداکار "معین اختر اور بنگالی گلوکارہ روُنا لیلیٰ" کی پہچان بنا۔معین اختر اس پروگرام میں آئے ہوئے مہمانوںاور مختلف افراد کی انتہائی خوبصورت انداز میں نقلیں اُتارتے اور رونا لیلیٰ اپنی گائیکی سے شائقین کو متاثر کرتیں۔

اسکے بعد 1975ء میں" طارق عزیز" کے کوئز پروگرام "نیلام گھر" نے پی ٹی وی کی وساطت سے سٹیج شو میں ایک نیا قدم رکھ دیا جو مقبولیت کے جھنڈے ہی گاڑتا چلا گیا۔جسکی کڑی آج بھی "طارق عزیز شو "کے نام سے طارق عزیز ہی پی ٹی وی سے پیش کر رہے ہیں۔ "کسوٹی " کے نام سے 20سوالوںمیں جواب بوجھنے پر مشتمل ایک ایسا کوئز پروگرام مرتب کیا گیا کہ بعدازاں بلکہ آج بھی طلباء کے درمیان فارغ اوقات میں کھیلا جاتا ہے۔ حمایت علی شاعر اور پھر قریش پور اسکے میزبان رہے اور سوال بوجھنے والوں میں عبداللہ بیگ و افتخار عارف کی جوڑی اور پھر عبداللہ بیگ کے ساتھ غازی صلاح الدین کی جوڑی مشہور ہوئی۔اس دوران پی ٹی وی نے خواتین کی میزبانی کو بھی اہمیت دیتے ہوئے ـ" خوش بخت شجاعت" کی میزبانی میں"مینا بازار"کے نام سے سٹیج شو کا آغازکیا۔

جسکے بعد ذکر آتا ہے 1983ء میں " انور مقصود " کی میزبانی میں سٹیج شو"سلور جوبلی"کا۔اس ہی کے ایک پروگرام میں فلمسٹار" وحید مراد" سے مہمان کے طور پر جو انٹرویو کیا گیا۔ وہ شاید اُنکی زندگی کا آخری اَن ائیر انٹرویو تھا کیونکہ اُسکے بعد نومبر 83ء میں اُنکا انتقال ہو گیاتھا۔انور مقصود نے آنے والے سالوں میں مختلف ناموں سے مزید مزاحیہ پروگرام پیش کیئے جن میں اُنکے ہمراہ خصوصی طور پر معین اختر اور بشر یٰ انصاری بھی شامل ہوتے۔ موسیقی کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے بچوں سے لیکر بڑوں تک کیلئے ایسے پروگرام ترتیب دیئے گئے جنکی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔

  کھیلوں کا شعبہ ہو اور اُن کھیلوں میںکرکٹ ،ہاکی و سکوائش ۔جن میں پاکستان کے کھلاڑیوں کا اپنا ہی مقام رہاکے میچوں کی کمنٹری ریڈیو پر تو ایک عرصہ سے سُنی جارہی تھی لیکن پی ٹی وی کی انتظامیہ نے جلد ہی وہ سہولیت حاصل کر لیں جنکے تحت زیادہ تر یہی کوشش کی جاتی کہ عوام کو براہ ِراست میچ سے لُطف اندوز کیا جائے۔لہذا واقعی اُنکی کوششیں رنگ لائیں اور 1980ء کے بعد وہ دور آہی گیا کہ دُنیابھر میں کھیلے گئے کسی بھی پاکستانی میچ کو براہِ راست مکمل دکھایا جاتا۔

اس سے پہلے بیرون ِملک میں کھیلے گئے کرکٹ میچ چند مقرر کیئے گھنٹوں میںدکھایا جاتا تھا اور باقی میچ ریڈیو پاکستان کی طرف سے براہ ِراست پیش کی گئی کمنٹری سے سُنا جاتا۔ 9بجے کاخبرنامہ ہو اور پاکستان کی عوام پی ٹی وی کے سامنے نہ ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔اس شعبے کو تو اس ادارے نے آغاز سے ہی اہمیت دی۔نشریات کے شروع ہونے کے بعد چند منٹ کی اُردو ، بنگالی وانگریزی میں خبریں ۔بعدازاں اُردو و انگریزی میں۔7بجے باقاعدہ انگریزی میں اور پھر 9بجے کا اُردو کا وہ "خبرنامہ" جس میں دن بھر کی ملکی و بین الاقوامی سیاسی، سماجی،معاشرتی،کھیلوں و موسم کی خبریں اس انداز میں پیش کی جاتیں کہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا اپنی خبر سُن لیتا۔ 

خبریں ہوتیں یا اُن پر تبصرے سب تمیز کے دائرے میں۔طرفداری ہو یا مخالفت ہر ایک نام انتہائی اَداب و احترام سے لیا جاتا۔بلکہ اُس وقت کی نوجوان نسل کی درسگاہ وہی مدبر میزبان و شرکاء تھے جو چاہے سیاست پر بحث کریں یا سماج پر یا کھیلوں وغیرہ پر اخلاق کا دامن تھامے ہوئے تھے۔ خصوصی و ڈاکومینٹری نشریات میں بھی اس ادارے نے اپنا ایک مقام قائم رکھا ہوا ہے۔ملک میں جب 1970ء کے عام انتخابات منعقد ہوئے تو پی ٹی وی کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا اور تجربہ بھی کم ۔

لیکن اُن انتخابات اور پھر ملک میں ہونے والے تمام عام انتخابات پر جس خوبی کے ساتھ نتائج پیش کیئے گئے اُس پرملک کے ہر طبقے نے اطمینان کا اظہار کیا۔ 1974ء میں پاکستان میں منعقد ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس پر بھی اُس دور میں یادگار براہ ِراست کوریج کرنا اس ادارے کا عروج ثابت ہوا۔"کسوٹی " پروگرام سے شہرت حاصل کرنے والے عبداللہ بیگ نے اس ادارے کی طرف سے بہترین ڈاکو مینٹریز بھی پیش کر کے اس شعبے سے وابستہ افراد کیلئے مزید راستے کھولے۔ خراج ِتحسین:پاکستان ٹیلی ویژن کو آج اس مقام تک لانے میں ہر اُس شخص کا کردار اہم سمجھا جانا چاہئے جو اسکے کسی بھی شعبے میں خدمات انجام دیتا رہا ہے یا دے رہا ہے۔ 

 

 

Post a Comment

0 Comments