All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

Muslim Power by Shenawaz Farooqi

جن لوگوں کی نظر میں مادی وسائل کی بڑی اہمیت ہے اُن کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دنیا میں تیل کے معلوم ذخائر کا نصف س...ے زیادہ آج بھی امت ِمسلمہ کے پاس ہے۔ گیس کے معلوم ذخائر کا 60 سے 70 فیصد حصہ مسلم دنیا کے ہاتھ میں ہے۔ دس دیگر معدنیات کی فہرست بنائی جائے گی تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے ہر شے کا قدرت نے مسلمانوں کو وافر حصہ دیا ہے۔

زرخیز زمین اگر قدرت کا بڑا تحفہ ہے تو عالم اسلام اس حوالے سے دنیا کے تین خطوں یا منطقوں میں سے ایک ہوگا۔ پانی ایک بہت بڑا وسیلہ ہے اور اس کی اہمیت ہر اعتبار سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل کی جنگوں کو پانی سے منسلک کیا جارہا ہے۔ عالم اسلام کے پاس اس وسیلے کی بھی کمی نہیں۔ توانائی کے متبادل ذرائع میں شمسی توانائی اور ہوا کی طاقت سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔

دنیا کے کتنے ہی ملک ہیں جہاں سورج کی روشنی وافر مقدار میں فراہم نہیں ہوتی اور دنیا کے کتنے ہی حصے ایسے ہیں جہاں ہوا ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں۔ لیکن امت ِمسلمہ کے اکثر ملکوں میں ان وسائل کی بھی کوئی کمی نہیں۔ کیا یہ معمولی باتیں ہیں؟ مثل مشہور ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر۔ جو چیز مفت فراہم ہو اُس کی قدر نہیں ہوتی۔ لیکن جن قوموں کے پاس یہ وسائل نہیں ذرا ان سے پوچھیے کہ وہ ان کی عدم موجودگی کو کتنی شدت سے محسوس کرتی ہیں۔

1940ء میں مسلمانوں کی عالمی آبادی صرف 36کروڑ تھی‘ جبکہ آج تقریباً ڈیڑھ ارب ہے۔ 2020ء میں یہ آبادی 2ارب ہوجائے گی اور 2050ء میں اس آبادی کا تخمینہ 3ارب لگایا گیا ہے۔ لیکن لوگ کہتے ہیں آبادی کی کیا اہمیت ہے۔ صفحۂ زمین پر ایک ارب صفر لکھ دو یا دو ارب‘ کیا فرق پڑتا ہے! اس سلسلے میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اصل چیز تو معیار یا Qualityہے‘ تعداد یعنی Quantityکی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن اس دلیل کو رد کرنے کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ زیادہ تعداد میں زیادہ معیار پیدا کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ آبادی کے تصور سے عقیدے کو وابستہ کرلیا جائے تو مسلمانوں کی آبادی کے معنی کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں۔

اسلام یا امت ِمحمدیہ کی عمر اس روئے زمین پر تمام ادیان اور امتوں سے کم ہے۔ 
ہندوازم کی عمر پانچ ہزار سال سے زائد بتائی جاتی ہے اور دنیا میں ہندوئوں کی آبادی 80کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جس چیز کو آج عیسائیت کہا جاتا ہے اُس کی آمد اور اسلام کے ظہور میں تقریباً 600سال کا فرق ہے۔ عیسائیت کے پیشوائوں کے مطابق دنیا میں عیسائیوں کی تعداد دو ارب ہے۔ یہودیت روئے زمین پر دو ہزار سال کا قصہ ہے اور دنیا میں یہودیوں کی آبادی 6کروڑ بتائی جاتی ہے۔ بدھ ازم بھی ڈھائی ہزار سال کی تاریخ کا دعویدار ہے اور روئے زمین پر بدھسٹوں کی تعداد بہت بڑھاکر بھی بیان کی جائے تو 50کروڑ کی حد عبور نہیں ہوتی۔

ان سب کے مقابلے پر اسلام کی عمر صرف ڈیڑھ ہزار سال ہے اور مزید 42سال میں مسلمانوں کی آبادی تین ارب ہونے والی ہے۔ کیا یہ بساط ِعالم پر معمولی واقعہ ہوگا؟ کیا ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی موجودگی بساطِ عالم پر معمولی واقعہ ہے؟ کیا محض آبادی کے ’’ممکنات‘‘ اور ’’مضمرات‘‘ نہیں ہوتے؟
کیا صرف تعداد کا ’’وزن‘‘ نہیں ہوتا؟ آخر حضور اکرمؐ مسلمانوں کی کثرت پر ہی فخر کریں گے‘ ان کی دنیا پرستی میں ڈوبی ہوئی Quality پر نہیں۔ 

Post a Comment

0 Comments