All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سائفر کیس کا فیصلہ : انگنت دائروں کا سفر؟

سائفر کیس کا فیصلہ سنا تو دل کو ٹٹولا، وہاں نہ خوشی کے جذبات تھے نہ افسوس کے۔ یہ وہی منیر نیازی والا معاملہ تھا کہ
وہ بےحسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر
کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا
کچھ غور کیا تو یاد آیا کہ کپتان کے حالات حاضرہ کی شرح بھی منیر نیازی نے ہی بیان کر دی ہے کہ
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
(کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے / کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق تھا)

عمران خان کا معاملہ بھی صرف شہر کے لوگ نہیں، ان کے اپنے شوق نے بھی انہیں یہ دن دکھانے میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔ سیاسی قیادت کا قانونی نزاکتوں کے ہاتھوں تحلیل ہو جانا اچھی بات نہیں۔ سیاسی قیادت عوام کے ہاتھوں ہی تحلیل ہونی چاہیے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے، پاناما میں سے اقامہ نکلا تو جناب عارف علوی نے ضرورت سے کافی زیادہ منہ کھول کر عمران خان سے لڈو کھائے۔ معلوم نہیں آج کون لڈو کھا رہا ہو گا اور یہ بھی خبر نہیں یہ آخری لڈو ہو گا یا پیر مغاں کے انگوروں کے رس سے لڈو بنتے اور بٹتے رہیں گے۔ دائروں کا ایک سفر ہے، جسم شل ہو جاتا ہے مگر گھر نہیں آتا۔ گھوم پھر کر وہی مقام آ جاتا ہے جہاں سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہوتا ہے۔ ہم اسے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں: لو جی اک بار پھر گرنا پڑ گیا۔ یہاں فیصلے ہوتے ہیں تو گماں گزرتا ہے سو سال یاد رکھے جائیں گے۔ دوسری برسات برستی ہے تو نئی حقیقتوں کے ہاتھوں فیصلے اور منصف دونوں اجنبی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے قانون میں تو قدرت نے ویسے ہی اتنی لچک رکھی ہے کہ چاہے تو ہاتھی کو گزرنے دے اور چاہے تو مچھر پکڑ لے۔ سیاسی قیادت کو بھی مگر یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ڈی چوک کے اطراف میں سازگار موسم حسب ضرورت ضرور اتر سکتے ہیں لیکن ریاست کا کوئی داماد نہیں ہوتا۔

ریاست کسی وجہ سے صرف نظر کر سکتی ہے لیکن دائمی ہیجان کی کیفیت میں نہیں رہ سکتی۔ عمران خان نے سیاست کو کلٹ بنایا اور سمجھا وہ اس فصیل میں محفوظ ہیں۔ یہ خوش فہمی جاڑے کی پہلی بارش کے ساتھ بہہ گئی۔ کلٹ اور ریاست زیادہ دیر ساتھ نہیں چل سکتے۔ نظام نے ابھی بھی عمران خان کو نہیں اگلا۔ سزا اس سے بھی سخت ہو سکتی تھی۔ مقدمے کی کارروائی میں ایسا بہت کچھ موجود ہے کہ اپیل کے مراحل میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ گویا زبان حال بتا رہی ہے کہ گنجائش موجود ہے۔ اس گنجائش کا حصول مگر کلٹ سے ممکن نہیں، اس کے لیے سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے۔ سیاسی عصبیت قانون کے کٹہرے میں ختم نہی ہوتی۔ تارا مسیح کا پھندا بھی بھٹو کی عصبیت ختم نہیں کر سکا۔ نواز شریف بھی وقت کا موسم بدلا تو میدان میں موجود ہیں۔ عمران خان کی سیاست بھی ختم نہیں ہوئی۔ وقت کا موسم بدل سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے عمران خان کو ایک سیاست دان بن کر دکھانا ہو گا۔ بدلتے موسموں میں ان کے لیے قبیلے کے خان جیسا کوئی امتیازی مرتبہ دستیاب نہیں ہے۔ جیسے دوسرے ہیں، ویسے وہ بھی ہیں۔ زمینی حقائق کے ہمراہ امکانات کا جہاں اب بھی آباد ہے مگر صاحب کو زمین پر آنا ہو گا۔

عمران خان اپنی افتاد طبع کے اسیر ہیں۔ امور سیاست ہی کو نہیں، امور خارجہ تک کو انہوں نے بازیچہ اطفال بنا دیا۔ ابھی تو وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی زد میں آئے ہیں، بطور وزیر اعظم جو فرد جرم انہوں نے ایران میں کھڑے ہو کر پاکستان پر عائد کی تھی، وہ کسی انتہائی سنگین روب کار کی شکل بھی اختیار کر سکتی تھی۔ شکر کریں، بچ گئے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم نے شاید ہی کسی مقدمے کو سنجیدگی سے لیا ہو۔ فارن فنڈنگ کیس سے لے کر اب تک، ہر مقدمے کو کھیل سمجھا گیا۔ ان سب کا خیال شاید یہ تھا کہ خان تو پھر خان ہے۔ قانون کی کیا مجال خان کی طرف دیکھے۔ خان خفا ہو گا تو جون میں برف پڑنے لگے گی، خان خوش ہو گا تو جاڑے میں بہار آ جائے گی۔ اب وقت نے انہیں بتا دیا ہے کہ قانون خود ایک خان ہے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں اور مقبولیت کتنی ہی کیوں نہ ہو، قانون جب دستک دے تو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ملزم اور قانون کے بیچ صرف وکیل ہوتا ہے۔ اسے پوری قوت سے بروئے کار آنا چاہیے۔ 

سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ وکیلوں کو فیس دی جاتی ہے پارٹی ٹکٹ نہیں دیے جاتے۔ مزید سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وکیل پیپلز پارٹی سے نہیں لیے جاتے، اپنی پارٹی سے لیے جاتے ہیں۔ روایت ہے کہ کپتان نے ہدایت کی تھی ’سائفر سے کھیلنا ہے۔‘ سوچتا ہوں، کیا سے کیا ہو گئے کھیل ہی کھیل میں۔ لیجیے منیر نیازی پھر یاد آ گئے:
ہُن جے ملے تے روک کے پچھاں
ویکھیا ای اپنا حال!
(اب جب ملے تو روک کے پوچھوں
دیکھا ہے اپنا حال؟) 

آصف محمود 

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

Post a Comment

0 Comments