All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

مسئلہ فلسطین عالمی عدالت انصاف میں

مسئلہ فلسطین عالمی دنیا کے ماتھے پر ایک ایسا بد نما داغ بن چکا ہے جس کو مٹانے کے لیے شاید صدیاں لگ جائیں۔ عالمی طاقتوں کا دہرا معیار، مسلم امہ کی بے حسی، مغرب کی طوطا چشمی، اپنوں کی بے وفائی اور غیروں کی سنگ دلی نے مسئلہ فلسطین کو ایک انسانی المیہ بنا دیا ہے۔ یوں تو تمام عالمی ادارے مغرب کی خواہشات کے غلام ہیں اور انہی کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو یا غزہ میں بے گناہ انسانوں کا قتل عام ، عالمی عدالت انصاف یا دیگر عالمی اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اقوام متحدہ اور اس کے تمام ذیلی ادارے محض مذمتی بیانات تک محدود ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر امریکہ سمیت تمام مغربی طاقتوں کی خاموش حمایت نے انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کی قلعی کھول دی ہے اور عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے چہرے سے بھی نقاب اتار کے رکھ دیا ہے۔ امریکہ سمیت تمام با اثر عالمی قوتوں نے اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے محافظ کے طور پر رکھا ہوا ہے اور یہ عالمی ٹھیکے دار جب اور جہاں چاہیں اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ان حالات میں عالمی عدالت انصاف نے گزشتہ دنوں ایک اہم فیصلہ دے کر امید کی ایک نئی کرن پیدا کی ہے۔ جب مسلم امہ اور عالمی دنیا فلسطینیوں کی مسئلہ کے حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا نہ کر سکے، مسلم امہ بھی خاموشی کے ساتھ تماشہ دیکھتی رہے،عالمی امن کے ٹھیکیدار فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے میں مکمل طور پر ناکام رہے تو جنوبی افریقہ نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا۔ گزشتہ سال کے آخری ایام میں جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں اس حوالے سے شکایت درج کرائی۔جنوبی افریقہ کے صدر راما فوسا نے عالمی عدالت انصاف سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی کا حکم دے اس کے جنگی جرائم اور نسل کشی جیسے جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کرے۔ جنوبی افریقہ کا اپنی درخواست میں یہ کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ ہسپتالوں اور دیگر انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ 

ہزاروں فلسطینی موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ لہذا اسرائیل کو نسل کشی کے جرائم سے روکا جائے اور اس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔ اسرائیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہم صرف دفاعی کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان جرائم کا ارتکاب نہیں کر رہے۔ عالمی عدالت انصاف کے 17 رکنی پینل میں سے 16 ججز موجود تھے۔ جن میں سے 15 ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا جبکہ دو ججز نے اختلافی نوٹ جاری کیا۔عالمی عدالت انصاف نے قرار دیا کہ غزہ میں شامل تمام فریق عدالتی احکامات کے پابند ہیں۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ جنوبی افریقہ کے عائد کردہ الزامات درست ہیں اور غزہ میں اسرائیلی حملوں میں بڑے پیمانے پر بے گناہ شہری شہید ہوئے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف نے مزید کہا کہ عدالت غزہ میں انسانی المیے کی حدت سے آگاہ ہے اور ہم اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہو رہیں۔ یوں تو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے تاہم 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی کا سلسلہ شروع ہوا ہزاروں افراد شہید ہوئے۔

63 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ 9 اکتوبر کو اسرائیلی وزیر دفاع نے غزہ کے محاصرے کا اعلان کیا بجلی اور پانی کی سپلائی معطل کر دی۔ ہسپتالوں کو بھی نہ بخشا گیا اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں زخمیوں اور بچوں کو بھی شہید کیا گیا۔یہاں پر ایک ایسے المیہ نے جنم لیا جس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے فلسطینیوں کا موقف تسلیم کیا اور انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عدالت غزہ میں فلسطینیوں کو نسل کشی سے محفوظ رکھنے کا حق تسلیم کرتی ہے اور اسے نسل کشی کنونشن کے تحت یہ کیس سننے کا اختیار حاصل ہے انہوں نے اپنے تاریخی فیصلے میں قرار دیا کہ اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کا کیس خارج نہیں کریں گے اور نسل کشی کنونشن پر عمل درآمد کرنے کے لیے اسرائیل کو ہنگامی احکامات جاری کیے اور حکم دیا کہ وہ اس نوعیت کے اقدامات سے اجتناب کرے۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ اسرائیل اس امر کا پابند ہے کہ وہ غزہ میں نسل کشی نہ کرے عدالت نے اسرائیل کو غزہ میں انسانی صورتحال بہتر بنانے کا بھی حکم دیا اور کہا کہ اس علاقے میں شہریوں کو ان مشکل حالات سے نکالنے اور بحران حل کرنے کے لیے اسرائیل اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

فلسطینی مسلمانوں کے لیے ہر دن قیامت کا دن بن کر طلوع ہوتا ہے۔ ایک طرف تو وہ بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہیں دوسری طرف اسرائیلیوں کی کارپٹ بمباری نے وہاں زندگی کے آثار ہی معدوم کر دیے ہیں۔عالمی عدالت انصاف نے اگرچہ جنگ بندی کا حکم نہیں دیا لیکن امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ کہیں سے تو فلسطینیوں کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا ہے۔

پیر فاروق بہاو الحق شاہ

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments