All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ماحولیاتی تبدیلیاں اور پاکستان کا مستقبل

اقوام متحدہ کے زیر انتظام متحدہ عرب امارات میں ہونے والی’’کوپ 28 ماحولیاتی کانفرنس‘‘نے قدرتی آفات سے متاثرہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کی مدد کیلئے57 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے خصوصی فنڈ قائم کیا ہے۔ ورلڈ بینک کے زیرانتظام اس فنڈ کے ذریعے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث آنے والی قدرتی آفات سے متاثرہ ممالک میں ہونے والی تباہی اور نقصان کا ازالہ کیا جائے گا۔ اس طرز پر عالمی فنڈ کے قیام کا مطالبہ طویل عرصے سے کیا جا رہا تھا کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے کاربن کے بڑھتے ہوئے اخراج کے باعث پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کو گزشتہ کئی سال سے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث آنے والی قدرتی آفات سے بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔ اس تباہی کی ایک جھلک ہم گزشتہ سال شدید بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سیلاب سے مجموعی طور پر 1700 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور ملک بھر میں انفراسٹرکچر اور نجی املاک کی تباہی کے باعث 15 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔ اس فنڈ کے قیام میں’’کوپ 28 ماحولیاتی کانفرنس‘‘ کے صدر سلطان الجابر نے اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے فنڈ کے قیام کی کوششیں طویل عرصے سے جاری تھیں۔ 

تاہم ’’کوپ 28‘‘ کے اجلاس میں آغاز پر ہی یورپی یونین نے 275 ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات نے 100 ملین ڈالر، امریکہ نے 17.5 ملین ڈالر، جاپان نے 10 ملین ڈالر، جرمنی نے 10 ملین ڈالر اور دیگر 100 رکن ممالک نے مجموعی طور پر 100 ملین ڈالر سے زائد کی فراہمی کا اعلان کر کے دنیا کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچانے کے لئے شروع ہونے والے سفر میں ایک اہم سنگ میل طے کیا ہے۔ اس تناظر میں’’کوپ 28‘‘ کے رکن 120 ممالک نے 2030ء تک دنیا کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو تین گنا بڑھانے کے معاہدے پر دستخط کر کے ایک اور مثبت پیشرفت کی ہے۔ علاوہ ازیں رکن ممالک نے رواں دہائی کے آخر تک عالمی قابل تجدید توانائی کی پیداواری صلاحیت کو کم از کم گیارہ ہزار میگا واٹ تک لانے جبکہ کانفرنس میں شریک تیل اور گیس پیدا کرنے والی 50 بڑی کمپنیوں نے 2050 تک کاربن فری ہونے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی آرامکو اور متحدہ عرب امارات کی اے ڈی این او سی اُن 29 سرکاری کمپنیوں میں شامل ہیں جنہوں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس میں میتھین کا اخراج صفر کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ 

ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا جائزہ لینے اور ان کے حل سے متعلق اقدامات کرنے کے لئے ’’کوپ 28‘‘ دنیا کا سب سے بڑا عالمی اجتماع تھا جس میں برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم سمیت دنیا بھر سے آئے ہوئے سو سے زائد سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 97 ہزار مندوبین شریک تھے۔ دو ہفتوں تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں کمی پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس دوران سال 2023 کو انسانی تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا گیا اور اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ عالمی تپش کے خطرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں فوسل فیول یعنی حیاتیاتی ایندھن کے بڑے پیمانے پر استعمال سے ہونے والے کاربن کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کے ایک بڑے حصے میں پانی کی قلت اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنگلوں میں آگ لگنے کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی اسی صورت حال کا نتیجہ ہیں۔

علاوہ ازیں گلیشیروں کے پگھلنے اور سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے وسیع آبادیاں پانی میں غرق ہونے کے امکانات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل تیز تر ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان کیلئے اسکے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اب ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اس حوالے سے درپیش چیلنجز کو نظر انداز کر سکیں کیونکہ کچھ عرصہ قبل تک ہم گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے، شہری اور دیہی علاقوں میں بارشوں کے باعث آنے والے سیلابوں کے سبب جانوروں کے خاتمے اور انسانی زندگی کے متاثر ہونے کی باتیں صرف کتابوں میں پڑھا کرتے تھے یا اس طرح کی منظر کشی ہالی وڈ فلموں میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ تاہم اب یہ صورتحال پاکستان میں عملی طور پر ہر چند سال یا چند ماہ بعد بار بار دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان ارضیاتی طور پر ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیاں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی آمدنی، رہائش، خوراک اور سلامتی کو خطرے میں ڈال چکی ہیں۔ اس سنگین صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو عالمی اوسط کی نسبت زیادہ اوسط درجہ حرارت کا سامنا ہے۔ 

دنیا میں سب سے زیادہ آفات کے خطرے کی سطح کو ماپنے کے نظام انفارم رسک انڈیکس کی طرف سے 2023ء میں جاری کی گئی رینکنگ کے مطابق پاکستان 191 ممالک میں سے 16ویں نمبر پر ہے۔ علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلی کی تخفیف کے اقدامات اکثر غیر متناسب طور پر سب سے زیادہ پسماندہ افراد کو متاثر کرتے ہیں۔ اسلئے ہمیں ہر ممکن طریقے سے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے متحرک ہونے اور آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے لے کر مقامی حکومتوں تک کی سطح پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہیں ہمیں اسے سکولوں کی سطح پر نصاب کا بھی حصہ بنانا ہو گا تاکہ ہماری نئی نسل موسمیاتی تبدیلیوں کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو سکے۔

کاشف اشفاق 

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments