All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیا پاکستان پیپلز پارٹی مر چکی؟

کس نے جانا تھا کہ آج سے 51 سال قبل جس پارٹی کا پہلا کنونشن بھٹو نے لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر ایوبی آمریت اور اسکے سیاسی حواریوں کی سرکاری کنونشن مسلم لیگ کے خلاف برپا کیا تھا، اس پارٹی کا حال نصف صدی تک پہنچتے پہنچتے خود کنونشن مسلم لیگ کی سیاست سے زیادہ مختلف نہیں ہو گا۔ یہ وہ پارٹی ہے جسے ہمیشہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیٹس کو پارٹی سمجھا جاتا رہا تھا اور بہت سارے معاملات میں ماضی قریب تک تھی بھی۔ گزشتہ ماہ کی تیس تاریخ کو ذوالفقار علی بھٹو کی اس پارٹی کا یوم تاسیس تھا جو کسی دھام دھوم کے بغیر گزر گیا۔ گزر تو اس ملک میں اس پارٹی اسکی قیادت اور کارکنوں کے ساتھ بھی بہت کچھ گیا ہے۔ اتنا بہت کچھ کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پارٹی بھی گزر جانے تک آ پہنچی ہے۔ لیکن بہت سوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی مرا نہیں کرتی۔ میرا بھی آج کا سوال یہی ہے کہ کیا پاکستان پیپلزپارٹی مر چکی؟

میرے دوست اور شاعر مسعود منور کا خیال ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اس دن مر گئی تھی جب اسکے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔ مسعود منور جنہوں نے بھٹو کی پھانسی والی رات پر لکھا تھا : ’’رات کے دو بجے تم سبھی سو چکے تھے مگر وہ ابھی جاگتا تھا‘‘۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں یہ وہ پارٹی تھی جسے بھٹوئوں اور انکے جیالوں نے واقعی اپنے خون سے سینچا تھا۔ جیالے جنہیں میں نے اپنے سروں کے چراغ جلاتے ہوئے جیالے کہا تھا۔ مسعود منور کا خیال ہے کہ بھٹو کی پارٹی کا زیادہ تر خاتمہ اسکی بیٹی کے ہاتھوں ہی ہوا جب بھٹو کی پھانسی کے بعد بینظیر بھٹو کو پارٹی کا مختارکل بنایا گیا پھر اس نے پرانے اور قربانی دینے والے لوگوں کو پارٹی سے نکالنا یا کھڈے لائن لگانا شروع کیا۔ 

بینظیر بھٹو اور ان کے قریب کے پارٹی کے لوگ پرانے لوگوں کے نکلے جانے یا نکالے جانے کو ’’انکلز کا پارٹی سے الوداعیہ‘‘ یا پارٹی میں نئے اور جوان خون کا داخلہ بھی کہتے ہیں۔ ممتاز علی بھٹو، حفیظ پیرزادہ، غلام مصطفیٰ جتوئی، غلام مصطفیٰ کھر، جام صادق علی ، ملک معراج خالد ایسے کئی لوگوں کو پارٹی سے نکال دیا گیا یا ان کو اپنا راستہ لینا پڑا۔ لیکن اس پارٹی کی ایک تاریخی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ پارٹی اپنے دشمن خود پیدا کرتی ہے۔ ضیاء الحق سے لیکر جام صادق علی تک اسکی بڑی مثالیں ہیں۔ بھٹو نے نہ صرف بہت ہی پیشہ ور اور وفادار دوست جنریلوں کو یکسر نظر انداز کر کے ضیاءالحق کو چنا بلکہ اسے جلدی ترقیاں دیتے ہوئے فوج کا سربراہ بھی مقرر کیا۔ بریگیڈیئر سے ترقی دیکر چار ستارہ جنرل تک پہنچایا اور پھر اسی نے بھٹو کو پھانسی کے تختے پر پہنچایا۔

رکھوالوں کی نیت بدلی گھر کے مالک بن بیٹھے، جو غاصب محسن کش تھے صوفی سالک بن بیٹھے دوسری طرف مبشر حسن جن کے گھر پارٹی نے جنم لیا، میر تالپور برادران جن کا گھر شہر حیدر آباد میں علاقہ ٹنڈو میر محمود یا ٹنڈو آغا میں تھا جو پارٹی کا دوسرا جنم گھر یا عوامی ننھیال ثابت ہوا تھا ان میر برادران کو نہ صرف پارٹی سے نکل جانا پڑا بلکہ سیاسی انتقام کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ قائدعوام بھرے جلسہ عام میں کس زبان پر اتر آئے وہ اس شہر کی اس تمام نسل کو اب بھی یاد ہے۔ وجہ کیا تھی کہ میر علی احمد تالپور کے دو بیٹے بھٹو حکومت کے خلاف بلوچستان میں پہاڑوں پر لڑنے گئے تھے۔ میر حیدر علی تالپور اور میر محمد علی تالپور۔ پھر جب پی این اے تحریک چلی تو بڑے تالپور برادران اس تحریک میں شامل ہو گئے۔ پھر اس تحریک کے دوران میر رسول بخش تالپور کا قریبی عزیز نوجوان میر شیر محمد تالپور بھی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنا۔

جے۔ اے رحیم یا جمال عبدالرحیم (جنہوں نے پارٹی کا منشور لکھا تھا)، خورشید حسن میر، معراج محمد خان، میر علی بخش تالپور (فریال تالپور کے سسر) ، خود حاکم علی زرداری، سید سعید حسن، مولانا عبدالحق ربانی سب پارٹی کے ساتھ رہے تھے لیکن پارٹی کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد بلکہ چند ہفتوں میں ہی انہیں سیاسی بیوفائی کا نشانہ بنایا گیا۔ اور تو اور مخدوم طالب المولا کو بھی جیل میں ڈالا جا رہا تھا کہ غلام مصطفیٰ جتوئی نے ان پرعتاب خوش اسلوبی سے ٹال دیا تھا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی جا چکی تو مظہر علی خان اپنی بیگم طاہرہ مظہر علی خان کے ساتھ بھٹو کی جان بچانے کی کوششوں میں حیدرآباد گئے تھے کہ وہ کسی طرح تالپور برادران کو بھٹو کی جان بچانے کی کوششوں میں شامل کر لیں کہ اس وقت تالپور برادران ضیاء الحق کے قریب آ گئے تھے۔ 

لیکن تالپور برادران نے معذرت کر لی تھی۔ وگرنہ اسی پارٹی کے جنم شہر لاہور میں ایک ہوٹل کی کافی شاپ میں اکثر شامیں گزارنے والے سخن گو نفاست پسند میر علی احمد خان تالپور کو پارٹی کے بننے والے دنوں کے چشم دید گواہ نوجوان انقلابی، طالب علم رہنما، وکلا، صحافی و شاعر، کون نہیں جانتا تھا؟ اسی ہوٹل میں شامیں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ گزارنے والوں میں شورش کاشمیری، حبیب جالب ، ظفر یاب احمد ،حسن واسطی اور کئی تھے۔ جب حبیب جالب نے ان دنوں لکھا تھا ’’تو ہے تلوار علی کی اے ذوالفقار علی‘‘ شاید یہ بھی آپ کو معلوم ہو کہ پی پی پی کا ’’روٹی کپڑا اور مکان کا “ نعرہ بھی حبیب جالب کی نظم سے ادھار لیا گیا تھا۔ پھر وہی جالب بھٹو کے تمام دور میں پس دیوار زندان رہا۔

پارٹی کے وجود میں آنے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ جب ذو الفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہو کر آئے تو گورنر نواب امیر محمد آف کالاباغ کی دہشت کا راج تھا اور بھٹو کے جاننے والے جانتے ہیں کہ بھٹو قدرے سہمے ہوئے تھے۔ تب یہ مشورہ ان کو ان کے دوست بائیں بازو کے خیالات والے سابق سفارتکار جے اے رحیم ہی نے دیا تھا کہ کچھ روز وہ یورپ چلے جائیں اور وہاں جاکر پارٹی بنانے پر غور و خوض کریں۔ بعد میں جے اے رحیم بھی بھٹو سے جا کر جنیوا میں ملے۔ جہاں بھٹو کی بننے والی پارٹی کیلئے سوشلسٹ تصور بھی جے رحیم کا تھا۔ پھر آپ میں سے کسی کو یاد ہو گا کہ جب بھٹو کراچی پہنچے تو کینٹ ریلوے اسٹیشن سے ہزاروں لوگ انکے جلوس میں تھے، ان کو بیگم خلیق الزماں کی رہائش گاہ پر لایا گیا تھا۔ مجھے معراج محمد خان نے بتایا تھا کہ انہوں نے دیگر طلبہ ساتھیوں کیساتھ ان سے ملاقات کی تھی اور انہیں کہا تھا کہ اگر وہ سیاست میں آنے کا اعلان کرتے ہیں تو وہ اور انکے ساتھی ان کی حمایت کریں گے۔ 

تو پس عزیزو! باقی سب تاریخ ہے۔ ایک کالم میں کتنی کہانیاں آ سکتی ہیں!

حسن مجتبٰی
 

Post a Comment

0 Comments