All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

انڈین سپریم کورٹ کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا

آزاد ہندوستان میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ ہندوستان کی عدالتِ اعظمیٰ کے کورٹ نمبر 2 میں بیٹھے جسٹس چلامیشور صبح ساڑھے گیارہ بجے اچانک عدالت کی کارروائی ختم کیے بغیر اٹھ گئے۔ جلد ہی جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کریان جوزف جو کورٹ نمبر تین چار اور پانچ میں بیٹھے تھے وہ بھی اپنی کرسی سے اٹھ کے چیمبر میں چلے گئے۔ عدالتی رہداریوں میں افوائیں تھیں کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی ایک پریس کانفرنس ہونے جا رہی ہے جس کی جلد ہی میڈیا رپورٹس نے بھی تصدیق کر دی۔
دوپہر 12 بجے تک بار رومز اور کینٹین وکیلوں سے بھرنے شروع ہو گئے۔ ایک دو کے سوا سبھی عدالتیں دن کے کیسوں کا کوٹہ ختم کیے بغیر اُس وقت تک اٹھ گئی تھیں۔ عدالتی رہداریوں میں شور تھا کیونکہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا تھا کہ سب سے سینیئر جج میڈیا سے بات کریں یا پریس کانفرنس بلائیں۔ اِس کانفرنس میں ججوں نے ایک خط جاری کیا جس میں چیف جسٹس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ کیسز غلط طریقے سے باقی کے ججوں کو دیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ اس خط میں کوئی مثال نہیں دی گئی لیکن اشاروں میں سب سمجھ آ گیا۔

کچھ مہینے پہلے چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنی بینچ کے سامنے ایک معاملہ سماعت کے لیے پیش کیا تھا جو دوسرے ججوں کی بینچ کے سامنے چل رہا تھا اور اُس میں سماعت بھی ہو چکی تھی۔ یہ مقدمہ میڈیکل کونسل میں رشوت سے متعلق تھا۔ اِس بات کا بھی ذکر صاف الفاظ میں نہیں کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس روسٹر سسٹم کا خیال کیے بغیر اپنی مرضی کے ججوں کو حساس کیس دے دیتے ہیں۔ خط میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سینیئر ججوں کو چننے کے لیے ایک میمورینڈم آف پروسیجر آج تک بنایا ہی نہیں گیا ہے اور اسے ٹالا گیا ہے۔ اِس پریس کانفرنس نے کئی سوال اٹھائے ہیں۔

اِس خط میں کئی ایسی باتیں ہیں جو اِس جانب سوال اٹھاتی ہیں کہ کیا سپریم کورٹ ایک غیر جانبدارانہ پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ ایسے کئی لوگ ہیں جو اِن چار ججوں کی اِس پریس کانفرنس پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اِس نے عدالت کے تقدس کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو اِسے بہت بہادری کا اقدام کہہ رہے ہیں کیونکہ اِن ججوں کی اپنی ساکھ پر کئی سوال کیے جا سکتے ہیں۔ اِس سب کے باوجود ہندوستان کی سپریم کورٹ کے منصفوں نے عدالت کی عزت بچانے کے لیے بولنے کا فیصلہ کیا۔ اِسے جو بھی کہا جائے ایک بات صاف ہے کہ عدالتِ اعظمیٰ نقائص سے پاک نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں جو ہوا وہ ایک اندورنی خلش تھی جو اب دنیا کے سامنے آ گئی ہے۔

سیما راؤ
وکیل، انڈین سپریم کورٹ
 

Post a Comment

0 Comments