All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیا پھر ٓآئی ایم ایف کی طرف جا رہے ہیں؟

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 15 ستمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، مریم نواز شریف اور دیگر افراد کی 28 جولائی کے فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ اس فیصلے کے بعد اب سارا معاملہ نیب کے پاس چلا گیا ہے۔ وہاں شریف فیملی کے ساتھ کیا ہوتا اور کیا کچھ نہیں ہوتا۔ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ یہی نظر آرہا ہے کہ شریف فیملی کی مشکلات بڑھ سکتی ہے جس کی زد میں حدیبیہ پیپر ملز کیس ری اوپن ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ شہباز شریف وغیرہ بھی آسکتے ہیں۔

اس طرح آنے والے چند ہفتے شریف خاندان کے لئے شاید اچھے نہ ہوں، اسی صورتحال میں ملکی معیشت کا آئندہ نقشہ کیا ہو گا، اس بارے میں ملکی و غیر ملکی ماہرین سوچ بچار کر رہے ہیں، تاہم ان کوخدشہ ہے کہ اگر ملک میں سیاسی حالات دن بدن خراب ہوتے گئے تو اس سے یقینی طور پر معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جس سے اقتصادی پالیسیوں پر عملدرآمد کی رفتار بھی سست روی کا شکار ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ا یک رائے یہ بھی ہے کہ اس صورتحال میں عدلیہ کے فیصلوں سے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بھی بہتر ہو گا کہ پاکستان کا عدالتی نظام موثر انداز میں کام کر رہا ہے اور یہاں’’انصاف‘‘ کا ایشو متنازع نہیں ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ جس ملک میں انصاف پر مبنی فیصلوں کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ اس سےملکی امیج کی بیلنس شیٹ بہتر نظر آنا شروع ہو جاتی ہے جس سے ملکی سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کار گروپ زیادہ مطمئن نظر آتے ہیں۔

اس لئے عدالتی فیصلوں پر سیاست کی بجائے آئین اور قانون کی بالا دستی ہر لحاظ سے ملکی مفاد میں پہلی ترجیح ہونی چاہئے، اگر خدا خدا کر کے یہ سلسلہ عدالت عالیہ میں شروع ہوا ہے تو اس کا دائرہ کار وسیع ہونا چاہئے تا کہ پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد میں حائل دشواریاں ختم ہو سکیں۔ اس سلسلہ میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز، اوررسیز پاکستانیز چیمبرز اور ملکی و غیر ملکی اداروں کے سربراہوں کی مشترکہ کانفرنس وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی طلب کریں جس میں سرمایہ کاروں کے خدشات دور کرنے کے لئے انہیں ایسی یقین دہانی کرائیں جس سے موجودہ بدگمانی کی صورتحال اور خدشات کا ماحول دور کرنے میں مدد مل سکے۔

وزیر اعظم کے لئے ایسا کرنا ازحد ضروری ہے اس لئے کہ آنے والے دنوں میں عالمی بنک، آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کا دبائو پاکستان پر بڑھنے والا ہے۔ اس لئے کہ ہماری برآمدات میں دن بدن کمی کے برعکس درآمدات میں اضافہ ہر لحاظ سے تشویشناک ہے جس سے ایک طرف تجارتی خسارے کا مسلسل بڑھنا اور دوسری طرف ادائیگیوں کا توازن بگڑنے سے معیشت ایک ایسے دبائو میں آنے والی ہے جس سے ہو سکتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں حکومت کو دوبارہ چار پانچ ارب ڈالر کے نئے قرضہ یا سپورٹ کے لئے رجوع کرنا پڑے۔ اس صورتحال میں اگر ملک میں غیر یقینی صورتحال برقرار رہی تو اس سے عالمی سطح پر ہمارے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ 

موجودہ حالات تقاضا کررہے ہیں کہ مفاہمت اور رواداری کی فضا کو بحال کرنے کیلئے تمام سیاسی قائدین مل بیٹھ کر مشاورت کریں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ اور سیاسی قائدین اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ورنہ جمہوریت کا سفر ڈی ٹریک ہوتا ہے تو ان کے پاس اپنے دفاع میں کچھ نہیں باقی بچے گا، پھر الیکشن نہیں، احتساب کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔

سکندر حمید لودھی
 

Post a Comment

0 Comments