All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کرپشن سے نجات کیسے ممکن ہے؟

وطن عزیز کا قیام قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں قوم نے بے شمار قربانیوں کی داستانیں رقم کرتے ہوئے ممکن بنایا۔ اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے اس خطے کے حصول کے وقت پیش نظریہی تھا کہ اس کو اسلام کا مرکز و محور اور نمونہ بنائیں گے، تاکہ مسلمان اس میں ایک سچے مسلمان کی طرح زندگی گزار سکیں۔ اسلام ، اسلامی نظام زندگی کو پھر سے زندہ وتازہ کر سکیں اور اسلام کی بنیاد پر اسلامی تہذیب و تمدن کی عمارت استوار کر سکیں۔پاکستان کی عمارت سرا سر دین پر استوار ہے اور اس نے اہل پاکستان کو ایک قوم بنایا ،اسے متحد کیا اور ملت واحدہ کی صورت دی۔ آج جب پاکستان کے قیام کو سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکاہے ، قیام پاکستان کے مقاصد ہنوز تشنہ تکمیل ہیں اور سفر جاری ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان اس وقت گوناگوں مسائل اور مشکلات کا شکار ہے۔ بدامنی ، دہشت گردی ،بے روزگاری،بجلی ،پانی ، گیس اور توانائی کابحران ہے۔ فکری ونظریاتی انحطاط ،سیاسی و معاشی انتشار تہذیبی زوال، طبقاتی تقسیم در تقسیم اور تصادم ، اسٹیبلشمنٹ سے نفرت ، اداروں میں ٹکراؤ اور کشمکش، صوبہ جات میں باہم کشمکش اور تناؤ ،تعلیم و صحت کاغریب کی دسترس سے باہر اور سہولیات کا ناپید ہونا،عوام الناس کی زبوں حالی اور پریشان خیالی ،اعتماد کافقدان روز بروز بڑھ رہا ہے۔
حکومت وسائل کو منظم کرکے عوام کے مسائل کو حل کرتی ہے اور’’ گڈ گورننس‘‘ کے ذریعے عوام الناس کے دُکھ درد دور کئے جاتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے مسلم لیگ کا دور حکومت ہو یا پیپلزپارٹی کا،یہ برسراقتدار گروہ مثبت صلاحیتوں سے عاری رہے اور نہ صرف خود بلکہ ان کے حواریوں نے بڑھ چڑھ کر لوٹ کھسوٹ میں حصہ لیا،اس طرح بُرے طرز حکمرانی کو رواج دیا ۔ جس کے باعث آج پاکستان کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان کا ہر پیداہونے والا بچہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے کا مقروض ہے ، ایک سابق چیئرمین نیب کے مطابق پاکستان میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ اس طرح ملک میں ہونے والی کرپشن کا تخمینہ لگایا جائے تو سرکاری ادارے اور حکمران سالانہ 43 کھرب 80 ارب روپے کی کرپشن کرتے ہیں، جو نہایت پریشان کن اور تکلیف دہ صورت حال ہے۔ پرویز مشرف دورحکومت میں اکتوبر 2005ء کے زلزلے کے بعد پوری دنیا سے 5ارب ڈالر (5کھرب 23ارب 92لاکھ 50ہزار روپے) کی امدادی رقم متاثرین کے لئے موصول ہوئی۔ یہ امداد اصل متاثرین تک پہنچنے کی بجائے کہیں اور پہنچ گئی اور اصل متاثرین محروم رہے۔ اسی طرح اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے عام شہری کو انصاف فراہم کرنے کے نام پر ایشیائی ترقیاتی بینک سے 135ارب روپے قرض لیا۔ اس کے نتیجے میں عام آدمی کو انصاف تو فراہم نہیں ہوسکا، لیکن آج تک قوم اس قرضے کی اقساط ادا کرنے پرمجبور ہے۔ نیب صدر آصف علی زرداری کے غیر قانونی طور پر ڈیڑھ کھرب روپے اور 22ارب روپے کمانے کے الزامات کی تحقیق کر رہا ہے،جبکہ اس سے قبل ان پر سرے محل، ایس جی ایس کو ٹیکنا، منی لانڈرنگ، عوامی ٹریکٹر سکیم کے تحت 800 ٹریکٹر کی خریداری پر کمیشن بنانے اور فرانسیسی کمپنی سے معاہدے میں بھی کمیشن وصول کرنے کا الزام ہے۔

سینٹ کی فنانس کمیٹی میں سٹیٹ بینک نے انکشاف کیا کہ آصف علی زرداری کے دور میں ایک کھرب روپے کی غیر قانونی ادائیگی براہ راست آئی پی پیز کو کی گئی۔ آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین نے 460 ارب روپے کی کرپشن کی ہے۔ سابق وفاقی وزیر مواصلات ارباب عالمگیر نے ایک چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیتے ہوئے24 لاکھ ڈالر (25کروڑ 14لاکھ84ہزار) کمیشن لیا، جس سے لندن میں 4 فلیٹ خریدے ہیں۔ جب سے میاں نواز شریف وزیراعظم بنے ہیں، تب سے قوم کو معاشی خوشحالی کی نوید سنائی جارہی ہے، لیکن گورننس کا حال یہ ہے کہ 15 لاکھ نئے بیروزگاروں کااضافہ ہو چکا ہے، پاکستان کا ہر شہری ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہوچکاہے۔ برطانوی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نواز دور حکومت میں پنجاب اور سندھ کو 70 کروڑ پاؤنڈ، یعنی ایک کھرب 6 ارب 93 کروڑ 62 لاکھ 36 ہزار کی امداد دی گئی جو کرپشن کی نذرہو گئی۔ سندھ میں امداد سے چلنے والے 5 ہزاراسکول اور 40 ہزار اساتذہ جعلی نکلے۔

قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی ایک دستاویز کے مطابق میاں محمد نواز شریف نے 2009ء سے 2016ء تک، 7 سال سے ٹیکس ادا نہیں کیا۔ غریب قوم کے صدر، صدرپاکستان ممنون حسین کی سیکیورٹی پر ایک سال میں ایک ارب روپے کے لگ بھگ خرچ کئے جا رہے ہیں، اسی دوران انہوں نے قومی خزانے سے 60 ہزار ڈالر (62لاکھ87ہزار روپے) کی ٹپ بیرونی ممالک کے دوروں میں اپنی خدمت پر مامور خادموں کو عنایت کر دی،جبکہ گزشتہ تیس برسوں میں 430 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے ہیں۔ پانامہ لیکس کے ذریعے ایک بڑا دھماکہ ہوا جس میں کل 479 بڑے پاکستانیوں کے نام شامل ہیں،جن میں وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خاندان اور دوست احباب سرفہرست ہیں، انہوں نے ٹیکس سے بچنے کے لئے غیر قانونی طریقے اختیار کئے اور وطن عزیز کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ اڑھائی ہزار پاکستانیوں کے نام دبئی لیکس میں بھی شامل ہیں جنہوں نے دبئی میں ایک کھرب روپے سے زیادہ کی جائیداد خرید رکھی ہے۔ ان میں سب سے بڑا نام موجودہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا ہے جو وزیراعظم کے قریبی عزیز ہیں۔ حکومتی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ صرف لاہور شہر کے ایک حصے پر بننے والی اورنج لائن ٹرین کا بجٹ (162ارب روپے ہے) جو صحت کے کل بجٹ سے تقریباً آٹھ گنا زیادہ ہے۔یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے وفاقی بجٹ میں صحت کے لئے محض 22 ارب 40 کروڑروپے مختص کئے تھے۔ اس کے مطابق ہر پاکستانی کی صحت کے لئے حکومت کا مختص کردہ بجٹ 110 روپے سالانہ اور 9روپے ماہانہ فی کس بنتا ہے۔

اس وقت کرپشن کی وجہ سے وطن عزیز کی صورت حال یہ ہے کہ یوتھونومیکس گلوبل انڈیکس 2015ء نے پاکستان کو 25سال سے کم عمر نوجوانوں کے لئے دنیا کا بدترین ملک قرار دیا ہے۔ 2015ء میں دس لاکھ پاکستانی روزگارکی تلاش میں اپنا مُلک چھوڑ چکے ہیں، 1971ء سے اب تک 90 لاکھ پاکستانی اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر دوسرے ملکوں میں جاچکے ہیں۔ پاکستان سے نقل مکانی کی بنیادی وجہ یہاں روزگارکی کمی ہے۔ ڈاکٹر سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کر بین الاقوامی تنظیموں کا حصہ بن رہے ہیں۔ سوشل پالیسی ڈویلپمنٹ سنٹر(ایس پی ڈی سی ) کے تازہ سروے کے مطابق پاکستان میں 30 لاکھ  سے زیادہ نوجوان بے کاری کی زندگی بسرکررہے ہیں۔ نوجوانوں کی 54فیصد آبادی کسی بھی تعلیمی یا جسمانی سرگرمی میں مشغول نہیں ہے۔۔۔ نیب کرپشن کے خاتمے کے لئے بنا۔ اس میں گزشتہ 16سال میں نیب نے309,000 شکایات سرکاری و غیر سرکاری محکموں سے وصول کیں اور 6300 انکوائریوں کو مکمل کیا،جبکہ اس دوران اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کے ڈیڑھ سو بڑے مقدمات کی رپورٹ ملکی سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ہے،جبکہ اس دوران 150 میں سے 71 مقدمات کی انکوائری مکمل کی گئی ہے، 41 مقدمات کی تحقیقات تکمیل کے مرحلے میں ہیں، جبکہ 38 کی تحقیقات مکمل کرکے ریفرنس احتساب عدالتوں کو بھجوائے جا چکے ہیں۔

اس وقت حکمرانوں پر ٹیکس چوری کے الزامات اور ناقص پالیسیوں کے باعث ایف بی آر تمام ترکوششوں کے باوجود تاجروں کو ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں کر سکا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں ہانگ کانگ دنیا کا کرپٹ ترین خطہ تھا، لیکن آئی سی اے سی کے قیام کے محض 5 سال کی قلیل مدت میں کرپشن کے عفریت پر قابو پا لیا گیا۔ اسی طرح 1959ء میں برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنے والا ’’سنگاپور‘‘ کرپشن کی بدترین مثال تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق آج کا سنگا پورسب سے کم کرپشن والے ممالک میں تیسرے نمبرپر ہے۔۔۔Political Economic And Risk Consultancy (PERC)۔۔۔ کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ گزشتہ 10 سال کے اعداد وشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کرپشن کے ناسورپر کامیابی سے قابوپانے والے دنیا بھر کے ممالک میں ایشیائی ملک سنگا پور پہلے نمبر کے ساتھ سرفہرست ہے۔ پانامہ پیپرز لیکس، دبئی پراپرٹی لیکس ، قرضے معاف کرانے اور سینکڑوں میگا سیکنڈلز کی فہرستیں منظر عام پر آنے کے بعد ، جماعت اسلامی کی ’’کرپشن فری پاکستان ‘‘ تحریک کا مطالبہ ’’کرپشن کاخاتمہ‘‘ قوم کی آواز بن گیا ہے ، عوامی دباؤ پر ماحول تو یہ بن گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی سطح کاعدالتی کمیشن بنے اور بلاامتیاز تحقیقات اور احتساب ہو، لیکن سیاسی، جمہوری ، سول ملٹری صفوں میں بیٹھے افراد،جو کرپشن میں ملوث ہیں، انہوں نے پوری مہارت کے ساتھ عدالتی کمیشن اور احتساب کے مطالبہ لینے کارخ موڑ کر عملاً معاملہ سرد خانے کی طرف دھکیل دیا، لیکن اب ملک میں نظریاتی ، اخلاقی ، معاشی اور انتخابی کرپشن کے خاتمہ کامطالبہ سرد نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ریاستی اداروں اور حکومت نے بلاامتیاز احتساب کا معاملہ تقریباً مفلوج کردیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے متفقہ ٹی او آرز کی بنیاد پر چیف جسٹس آف پاکستان ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیں۔ اس وقت جو کیفیت ہے، اس میں سیاسی بحران اور بے یقینی کی فضا قائم رہے گی اور ملک و ملت کو لاحق خطرات اور نقصانات کی ذمہ داری سرا سر وفاقی حکومت پرہوگی۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے سب سے اہم چیز پختہ ارادہ اور خلوصِ نیت ہے۔ قانون سازی، عملدرآمد اور سزاؤں کے نفاذ کی مربوط اور جامع حکمت عملی ترتیب دینا بہت ضروری ہے، لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو تو یہ سارا عمل بے کار مشق بن جاتاہے۔ ایمان دارسیاسی قیادت، ترجیحات کے تعین، دیانت دارافسران اور عوام کی تائیدسے کرپشن کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتاہے۔

لیاقت بلوچ

Post a Comment

0 Comments