All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

این ایس جی میں شمولیت : بھارت کی نا کامی یا پاکستان کی جیت

یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ این ایس جی میں بھارت کی شمولیت کی درخواست کا مسترد ہونا بھارت کی نا کامی ہے یا پاکستان کی جیت۔ یہ سوال اہم ہے ہی نہیں کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی درخواست بھی مسترد ہوئی ہے۔ اہم یہ ہے کہ بھارت کی درخواست مسترد ہو ئی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی اہم نہیں ہے کہ جن پانچ ممالک نے بھارت کی مخالفت کی ہے انہوں نے یہ مخالفت چین کے کہنے پر کی ہے یا پاکستان کے کہنے پر۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کبھی این ایس جی میں رکنیت کے لئے سنجیدہ نہیں تھا۔ صرف بھارت کی ضد میں درخواست دی گئی بلکہ یہ کہنا غلط ہو گا کہ جو بھارت کا راستہ روکنا چاہتے تھے انہوں نے پاکستان سے بھی درخواست دلوا دی۔

خارجہ پالیسی بھی عجیب کھیل ہے۔ یہ جہاں مفاد کا کھیل ہے۔ وہاں یہ عام گھریلو سیاست سے بلند نہیں ہے۔ جس طرح عام گھریلو سیاست میں صف بندی بہت واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح اس گلوبل ویلج میں بھی صف بندی بہت واضح ہوتی ہے۔ آپ بیک وقت سب کے دوست اور سب کے دشمن نہیں ہو سکتے۔ جب آپ ایک کے دوست ہو نگے تو اس کے مخالف کا دشمن ہونا فطری ہے۔ روس اور بھارت کی دوستی کی ایک طویل داستان ہے۔ جس طرح پاکستان اور امریکہ کی دوستی کی ایک طویل داستان ہے۔ بھارت اور روس کے درمیان تعاون اور دوستی کئی دہائیوں پر محیط رہی ہے۔ جس طرح پاکستان شروع سے امریکہ کے کیمپ میں رہا ہے۔ اسی طرح بھارت شروع سے روس کے کیمپ میں رہا ہے۔ پاکستان امریکہ کے کیمپ میں ہونے کیو جہ سے روس سے دور رہا۔ اور بھارت روس سے دوستی کی وجہ سے امریکہ سے دور رہا۔ لیکن دنیا کی صف بندی بدل گئی ہے۔ آج بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کی درخواست کی امریکہ بھر پور حمائت کر رہا تھا۔ جبکہ روس نے بھارت کی شمولیت کی مخالفت کی ہے۔ چند سال قبل تک جب تک بھارت نے اپنا سارا وزن امریکہ کے پلڑے میں نہیں ڈالا تھا کون سوچ سکتا تھا کہ روس کسی عالمی فورم پر بھارت کی مخالفت کرے گا۔
جہاں تک چین کا تعلق ہے تو پاکستان کے تناظر سے دیکھا جائے تو چین نے کمال کر دیا۔ دوستی کا حق ادا کر دیا۔ بھارت کو دھول چٹا دی۔ مودی کی ساری سفارتکاری کو دفن کر دیا۔ اسی این ایس جی میں شمولیت کے لئے مودی نے امریکہ سمیت دنیا کا چکر لگایا۔ امریکہ کی حمائت حاصل کی۔ پاکستان کی مخالفت کروائی۔ جب چین نے مخالفت کی تو چین سے بھی بات کی۔ بھارت کی دلچسپی غیر معمولی تھی۔ بھارت نے اس کو اپنے لئے ایک انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔ لیکن اگر یہی صورتحال پاکستان میں ہوتی۔ مودی کی جگہ پاکستان کا وزیر اعظم ہو تا۔ اور پاکستان کے وزیر اعظم نے این ایس جی میں شمولیت کے لئے اتنی سفارتکاری کی ہوتی۔ اور نا کامی ہوتی تو عمران خان ان سے استعفیٰ مانگ رہے ہوتے۔ پورے ملک میں شور ہو تا کہ حکومت کی خارجہ پالیسی نا کام ہو گئی ہے۔

اسی تناظر میں اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو دیکھیں تو ہمیں سمجھ آنی چاہئے کہ بھارت کے د وست ہمارے دشمن ہیں۔اور ہمارے دوست بھارت کے دشمن ہیں۔ ساری خارجہ پالیسی اسی صف بندی کے گرد گھوم رہی ہے۔ بھارت کو ایک بڑا ملک ہونے کا فائدہ حاصل ہے۔ لیکن صف بندی اس فائدہ بھی ایک حد پر جا کر نیوٹرل کر دیتی ہے۔اس لئے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نا کام قرار دے رہے ہیں کہ اب جب ہم امریکہ کے دوست نہیں رہے تو امریکہ کے دوست بھی ہمارے دوست نہیں رہے۔ ان سے فاصلہ فطری ہے۔ اور اس فطری فاصلے کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان امریکہ کی پراکسی ہے ۔ جب امریکہ سے تعلقات خراب ہیں تو افغانستان سے کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ امریکہ اور ایران میں نئی نئی دوستی ہوئی ہے۔ اس کے اثرات پاک ایران تعلقات پر بھی نظر آرہے ہیں۔ دوسری طرف روس پاکستان کے قریب آرہا ہے۔ اور دیگر وہ ممالک جو امریکہ کے اتحادی نہیں ہمارے ساتھ آئیں گے۔ اس بدلتی دنیا کے تقاضے سمجھ کر ہی ہم اپنے نئے دوستوں کا انتخاب اور پرانے دوستوں کو الوداع کہہ سکتے ہیں۔

آج کل برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا بہت شور ہے۔ برطانوی عوام کے اس فیصلہ نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ خود برطانوی عوام بھی ہل کر رہ گئے ہیں۔ اور ایک خبر کے مطابق یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دینے والی اکثریت اب گوگل میں ڈھونڈ رہی ہے کہ یہ یورپی یونین کیا ہے۔ ان میں سے اکثریت نے اب اپنے انٹرویوز میں کہا ہے کہ اگر انہیں دوبارہ ووٹ دینے کا موقع ملے تو وہ علیحدگی کے حق میں ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ لیکن شائد اب برطانوی عوام کو جلد یہ موقع دوبارہ نہیں مل سکتا۔ اس ضمن میں ترکی کے صدر طیب اردوان کا تبصرہ سب سے خوبصورت ہے انہوں نے پیشن گوئی کی ہے کہ یورپی یونین کا مزید شیرازہ بکھرے گا۔ ان کے مطابق یہ سلسلہ اب یہاں نہیں رکے گا۔

جو لوگ چند سال قبل یورپی یونین کی مثال دیکر جنوبی ایشیا کو بھی یورپی یونین کی طرز کا خطہ بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ سوال تو ان سے ہونا چاہئے کہ اب جب یورپی یونین ٹوٹ رہا ہے تو ان کے جنوبی ایشیا کے خواب کہاں کھڑے ہیں۔ ایک دوست کا اس حوالہ سے تبصرہ دلچسپ ہے کہ جب تک پاکستان کی بھارت کے ساتھ لڑائی ہے۔ تب تک پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت کی کمی کوتاہی خودی ہمارا فائدہ بن جا تا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم نے تو کچھ نہیں کیا۔

مزمل سہروردی

Post a Comment

0 Comments