All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سعودی عرب اور ایران میں ثالثی کے امکانات

ایران میں سعودی سفارتخانوں پر ہونے والے حملوں پر عالمی برادری کی مذمت ایک فطری امر تھا کیونکہ یہ حملے ایران میں مزعومہ اسلامی انقلاب کے بعد تہران میں امریکی سفارتخانے پر حملے کی یاد دلاتے ہیں جس میں امریکی سفارتی عملہ ۴۴۴ دن تک یرغمال رہا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی کیونکہ سفارتی مشنوں کی حفاظت کا اصول قطعی حیثیت رکھتا ہے۔

در اصل سیکرٹری جنرل بان کی مون نے یہ غلطی کی کہ مذمتی بیان میں پہلے ان کا زور سعودی عرب میں۴۷ دہشت گردوں اور باغیوں کی پھانسی پر تھا جن میں ۴۴ سنًی اور تین شیعہ شامل تھے، پھر انہوں نے سرسری طور پر سعودی سفارتی مشنوں پر حملوں کا ذکر کیا، ایسے لگا جیسے وہ غیر ارادی طور پر ان حملوں کا جواز فراہم کر رہے ہوں۔

مداخلت

عالمی برادری کی اکثریت سزائے موت کی منطق کو مسترد کرتی ہے، سوائے امریکہ کے۔ تاہم یہ سعودی عرب کا حق ہے کہ وہ اس معاملے پر اقوام متحدہ کے موقف کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت سمجھ سکتا ہے، اور سیکرٹری جنرل کا یہ حق ہے کہ وہ سزائے موت کی عمومی طور پر مخالفت کر سکتے ہیں۔ ریاض کی جانب سے عالمی برادری کے رویہ کے دوغلے پن کی شکایت بجا ہے کہ جس نے ایران میں ایک ہزار سے زیادہ سیاسی مخالفین کو پھانسی دینے پر اس شدومد سے مذمت نہیں کی جس طرح سعودی پھانسیوں پر کی گئی۔ کوئی بھی دار الحکومت ایک ہی وقت میں ۴۷ پھانسیوں کو نظرانداز نہیں کر سکتا خواہ اس کی کوئی وجہ بھی ہو، اور اس کی ٹائمنگ بہت اہمیت رکھتی ہے۔

ریاض نے تہران سے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں جس کا مقصد سعودی سفارتی مشنوں پر حملوں کو ایران کی مبینہ سرکاری حمایت پر احتجاج اور سپریم لیڈر خامنہ ای کے بیانات کی مذمت کرنا تھا جس میں انہوں نےسفارتخانے جلانے کو شیعہ لیڈر نمر النمر کی پھانسی کا ‘آسمانی عذاب’ قرار دیا تھا حالانکہ وہ تشدد اور دہشت گردی پر اکسانے کے لیے مشہور تھا۔ سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟ سعودی رد عمل کن حدوں تک جائے گا؟

سعودی۔ایرانی محاذ آرائی نے دنیا بھر کے دارالحکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس سے شام، یمن، عراق اور لبنان میں ان کے درمیان مزید پراکسی جنگوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے شام اور یمن میں قیام امن کی سفارتی کوششوں کی ناکامی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ تاہم اس مرتبہ تشویش کا رخ پراکسی جنگوں سے زیادہ سعودی عرب کے داخلی معاملات میں ایرانی مداخلت، بالخصوص بحرین سے متصل مشرقی سعودی صوبے میں ایرانی مداخلت کے خدوخال اور ممکنہ نتائج پر رہا۔ بحرین میں بھی ایرانی مداخلت اب تخریب کاری، بغاوت، اور لبنانی حزب اللہ اور دیگر ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کے ذریعے دہشت گردی کے خفیہ سیل قائم کرنے کا روپ دھار چکی ہے۔

ثالثی کے لئے روس، ترکی، عراق اور اومان کی جانب سے کئی بار پیشکش کی جاچکی ہیں، لیکن امریکہ نے اب تک ایسی کوئی پیشکش نہیں کی حالانکہ اب واشنگٹن اور تہران کے درمیان اب رابطے بحال ہوچکے ہیں۔ حتیٰ کہ وزیر خارجہ جان کیری نے ریاض رابطہ کرنے سے پہلے تہران رابطہ کیا جو کہ دیرینہ امریکہ۔سعودی اتحاد کے پیش نظر ایک عجیب سفارتی حرکت تھی۔

ایران کے عزائم

ثالثی کے لئے ہر موقع کو استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔ عملی مقاصد اور مخصوص اہداف کے بغیر کھلی دشمنی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ریاض نے تہران کو واضح پیغام دے دیا ہے اور یہ اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد دنیا کی ان کوششوں کو ناکام بنانا ہے جن کے تحت ایران کو امن کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ حالانکہ ایران، شام کی جنگ میں ایک کھلا فریق ہے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہاں ملیشیا بھرتی کر کے اور اپنے مشیر بھی بھیج رہا ہے، جس پر عالمی برادری چشم پوشی کر رہی ہے۔

سعودی سفارتی مشنوں پر ایران کے دانستہ حملوں سے اس کے عزائم واضح ہو چکے ہیں۔ تاہم ایسے میں جب امریکہ، ایران کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے اور ایٹمی معاہدے کے نام پر اس کی اشک شوئی اور تلافی کر رہا ہے، عالمی برادری کی یادداشت بہت کمزور ہوگئی ہے۔

عملیت پسندی کا تقاضہ ہے جذبات اور غصے کے بجائے ہوش مندی سے کام لیا جائے۔ سعودی عرب نے شام کے لئے اقوام متحدہ کے نمائندے اسٹیفن ڈی مستورا کا استقبال کر کے عقلمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں سعودی سفیر عبداللہ المعلمی نے کہا ہے کو ریاض بان کی مون کے موقف کی وجہ سے اقوام متحدہ کا بائیکاٹ نہیں کرے گا اور ویانا مذاکرات میں شرکت کرتا رہے گا۔ اس سے سعودی سفارتکاری کی دانشمندی اور دانائی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

عملیت پسندی کا تقاضہ ہے کہ جنگوں اور ان کے مقاصد کا چناؤ سوچ سمجھ کر کیا جائے تاکہ ایک وقت میں کئی محازوں پر اور ایک حد سے ذیادو لڑائی نہ کی جائے مبادا وہ فوجی اور معاشی طور پر دیوالیہ پن تک نہ پہنچادے۔ اس کا تقاضہ ہے کہ ترجیحات، ہار جیت اور ان کے اثرات کا دانشمندی سے تعین کیا جائے۔
۱۹۷۹ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کے بعد سے ایران اپنے انقلاب کو دوسرے اسلامی ممالک کو برآمد کرنے کی حکمت عملی پر سختی سے کاربند رہا ہے۔ تہران نے اپنے لئے یہ جنگ منتخب کر لی ہے۔

 آج ایران اور روس ایک مضبوط اتحاد کو صورت میں شام میں موجود ہیں جس کی ایک بڑی وجہ امریکہ کی کمزوریاں ہیں۔ روس۔ایران۔حزب اللہ کا محور جسے چین کی آشیر باد حاصل ہے، بشار الاسد کے اقتدار کی بقا کا ضا من ہے، اور بدلے میں ان ممالک کو شام اور مشرق وسطی میں ایک طویل عرصہ تک اثرورسوخ کی ضمانت ملتی ہے۔

دوسری جانب ایران، امریکہ کے معاشقہ پر پورا اعتماد کرتا ہے اور محبوب کی انگوٹھی کی طرح اس کی نمائش بھی کرتا ہے۔ جارج بش نے ایران کو چاندی کی طشتری میں رکھ کر عراق پیش کیا تھا اور باراک اوباما نے شام میں اپنی ناکامی ایران کو تحفے میں دی ہے۔ ان دونوں امریکی صدور نے ایران کو ایک طاقتور علاقائی لیڈر بنا دیا ہے۔ دونوں ہی ایران کے دہشت گرد حملوں، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزیوں اور انقلاب برآمد کرنے کی غرض سے عرب ممالک می مداخلت سے چشم پوشی کرتے رہے۔

عملیت پسندی کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ عرب اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کے ماضی کے مضبوط تعلقات میں بگاڑ اور اس کی وجوہات اور اثرات کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے، اور اس کا بھی جائزہ لیا جائے کہ واشنگٹن اب عرب اتحادیوں کی جگہ ایرانی اتحادیوں کو دینے پر کیوں آمادہ ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ واشنگٹن، شام میں روس، ایران اور حزب اللہ کی کامیابی پر خوش ہوگا۔ اس پر بھی غور کیا جائے کہ اسرائیل پھر بشار الاسد کے اقتدار کی حمایت کر رہا ہےاور ایران کے ساتھ اس کے تعلقات اگر شام میں سنًیوں کے خلاف جنگ میں کھلے تعاون پر مبنی نہیں ہیں تو کم از کم اس کی خوشنودی حاصل کرنا اس کی ترجیح ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نائن الیون حملوں کی قیمت عربوں کو چکانا پڑ رہی ہے اور اب عربوں کا تیل امریکہ کی ضرورت نہیں رہا ہے۔

داخلی سلامتی

تمام خلیجی ریاستوں کی داخلی سلامتی اولین اور قطعی ترجیح ہونی چاہئے۔ اس کے لئےسرخ لکیروں کا تعین ضروری ہے تاکہ پیش قدمی کرنے، معاملات سے باہرنکلنے اور مخالفین کی قوت کا اندازہ لگانے حکمت عملی طے کی جاسکے۔ خلیج تعاون کونسل کے متفقہ معاہدے کا موضوع سعودی قومی سلامتی ہے۔ اگر روس یا سلطنت آف اومان، سعودی عرب اور ایران میں ثالث بننے کی پیشکش کرتے ہیں تو ان سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ ایران سے پختہ عہد لیں کہ وہ سعودی عرب کے مشرقی صوبے اور بحرین میں مداخلت اور بغاوت کی سازش بند کردے گا اور اس پر امریکی ضمانت بھی لی جائے۔ یہ ایک لازمی ترجیح ہے جسے خلیج تعاون کونسل نے اپنے لئے جنگ کے طور پر چننا ہے۔

دوسری جنگ یمن ہے جو سعودی سلامتی کا لازمی حصہ ہے۔ ایران نے یمن میں سعودی عرب کے خلاف پراکسی جنگ کا چناو کیا ہے تاکہ اسے سعودیہ کا ویت نام بنا سکے۔ دوسری طرف ایران نے امریکی حمایت سے کی جانے والی روسی مداخلت کے باعث شام کو اب تک اپنے لئے ویت نام بننے نہیں دیا ہے۔

جس طرح روس شام میں ایران کے لئے کر رہا ہے اس طرز کی کوئی اتحادی کارروائی سعودی عرب کو یمن میں میسّر نہیں ہے اس لئے یمن سے باہر نکلنے حکمت عملی تلاش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ یمن کے لئے مقصد اقوام متحدہ کے ایلچی ولد شیخ احمد کی سفارتی کوششوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

شام ایک ایسی جنگ ہے جو بد قسمتی سے جیتی نہیں جاسکتی۔ عالمی برادری نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایسی حکومت سے نہیں لڑے گی جو اپنے عوام کا قتل عام کر رہی ہے بلکہ وہ داعش سے لڑنا چاہتی ہے خواہ اس کے لئے ‘شیطان’ سے اتحاد کرنا پڑے۔ شام عالمی ضمیر پرہمیشہ ایک بد نما داغ کی طرح رہے گا، ایک ایسے زخم کی طرح جو کسی فتح کا جشن نہیں منانے دے گا۔

عملیت پسندی کا تقاضہ ہے کہ جنگ کا انتخاب کے ساتھ نقصانات کا اندازہ بھی لگایا جائے۔ عملیت پسندی یہ بھی سکھاتی ہے کہ کوئی چیز ہمیشہ باقی نہیں رہتی اور آج کا نقصان آنے والے کل کی سرمایہ کاری بھی بن سکتا ہے اگر جذبات کے بجائے دانائی سےکام لیا جائے۔

ایران کا اسلامی انقلاب ایرانی ملّاؤں کے لئے کامیابیاں لایا ہے مگر اس سے ایران کو چار دہائیوں تک عالمی تنہائی اور اس کے ساتھ ساتھ ترقی اور خوشحالی سے محروم رہنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ یہ کوئی فتح نہیں ہے۔ اس کے برعکس خلیجی ممالک نے چار دہائیوں میں ترقی کی اور حیرت انگیز شہر بسائے ہیں، اگرچہ آزادیوں پر کچھ قدغنیں رہی ہیں۔

آخر میں، تاریخ امریکی اتحادی حکومت کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتی۔ امریکی حکومتیں دوستی اور وفا کے لئے نہیں جانی جاتٰیں بلکہ واشنگٹن اپنے اتحادیوں کو دغا دینے اور ترک کر دینے کے لئے بدنام ہے۔ سعودی۔ایران تعلقات میں جذباتی اور انتقامی رد عمل سے ہر صورت گریز کرنا چاہئے۔

راغدہ درغام

Post a Comment

0 Comments