All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سعودی عرب پاکستان دفاعی معاہدہ : تاریخی سٹریٹجک اتحاد

سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط دفاعی شراکت داری ایک نئے عروج پر پہنچ گئی جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیراعظم شہباز شریف نے ریاض میں سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے میں اعلان کیا گیا کہ ’کسی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں کے خلاف جارحیت سمجھا جائے گا۔‘ یہ دفاعی معاہدہ اجتماعی ان سکیورٹی انتظامات کی عکاسی کرتا ہے جو روایتی طور پر نیٹو اور خلیجی تعاون کونسل جیسے علاقائی اتحادوں سے وابستہ ہیں اور جن کا مقصد ممکنہ جارحیت کرنے والوں کو روکنا ہوتا ہے۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق یہ معاہدہ ’دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی بڑھانے، خطے اور دنیا میں امن و سلامتی کے حصول کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کے پہلوؤں کو فروغ دینے اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع کو مضبوط بنانے کا ہدف رکھتا ہے۔‘ سعودی عرب اور پاکستان ایک منفرد اور دیرپا تعلقات کے حامل ہیں جن کا اکثر اہم مواقع پر غیر معمولی یکجہتی کے ذریعے اظہار کیا گیا۔ سعودی عرب کے لیے خلیج عرب میں سلامتی اور استحکام انتہائی اہم ہے۔ پاکستان بھی اس اہم حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا، خاص طور پر مملکت کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کے پیش نظر۔

اگرچہ یہ معاہدہ دوحہ میں عرب اسلامی ہنگامی سربراہ کانفرنس کے فوراً بعد ہوا لیکن درحقیقت یہ دونوں اتحادی ممالک کے درمیان برسوں کی مسلسل بات چیت کا نتیجہ ہے۔ یہ کسی خاص ملک یا واقعے پر ردعمل نہیں بلکہ ریاض اور اسلام آباد کے درمیان گہری اور مضبوط شراکت داری کا منظم اظہار ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں اس شراکت داری کا بھی ذکر کیا گیا جس میں ’مشترکہ سٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون‘ کو اس معاہدے کی بنیاد قرار دیا گیا، جس کی اصل اہمیت میرے خیال میں اس تاریخی رشتے میں ہے جو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان موجود ہے۔ یہ دونوں ممالک کے آزمودہ فوجی تعلقات کو ایک نئی بلندی پر لے جاتا ہے۔ یہ معاہدہ دہائیوں پر محیط مسلسل اور مخلصانہ کوششوں کا منطقی نتیجہ ہے جو مختلف قیادتوں اور حکومتوں نے کیں، اور جنہیں سعودی اور پاکستانی عوام کی غیر متزلزل حمایت حاصل رہی۔ لہٰذا اسے صرف موجودہ علاقائی کشیدگی کے تناظر میں نہیں بلکہ مشترکہ تاریخ کے وسیع تر زاویے سے سمجھا جانا چاہیے۔ یہ غیر معمولی گہرا تعلق واضح طور پر نظر آیا، جب شہباز شریف کا طیارہ سعودی فضائی حدود میں داخل ہوا۔ سعودی شاہی فضائیہ کے ایف 15 طیاروں نے ان کا استقبال کیا۔ یہ اعزاز اس سے قبل صرف ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میر پوتن جیسے رہنماؤں کو دیا گیا تھا۔

اس لمحے کی شان و شوکت کو مزید اجاگر ہوئی جب ریاض کی سڑکوں پر پاکستانی پرچم لہرائے گئے اور اسلام آباد میں سعودی پرچم بلند تھے۔ جیسے ہی یہ خبر پھیلی ، دونوں ملکوں کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فخر اور جشن سے روشن ہو گئے، جو دوطرفہ تعلقات میں ایک سنگِ میل دیکھنے کے مشترکہ جذبے کی عکاسی تھی۔  سعودی عرب کے سفیر کے طور پر تقریباً ایک دہائی پاکستان میں خدمات انجام دینے کے بعد، میں بخوبی اندازہ لگا سکتا ہوں کہ عوامی جذبات کتنے گہرے ہیں، چاہے ملک اب بھی تباہ کن مون سون سیلابوں سے دوچار ہے۔ پاکستانیوں کے لیے سعودی عرب ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد حج اور عمرہ کے لیے وہاں جاتے ہیں، جبکہ لاکھوں دیگر اپنی محنت اور لگن سے مملکت کی خوشحالی میں حصہ ڈال ہیں۔ وژن 2030 کے فریم ورک کے تحت ولی عہد نے پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کی سیاسی، اقتصادی، دفاعی اور ثقافتی شمولیت کو گہرا کرنے کو ترجیح دی ہے۔ اسلام آباد نے بھی اس ترجیح کو بھرپور انداز میں اپنایا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر، جو پاکستان کے آرمی چیف ہیں، نے بھی شہباز شریف کی طرح سعودی قیادت سے باقاعدہ روابط قائم رکھے ہیں۔ انہوں نے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے، جنہیں گذشتہ سال نشان پاکستان سے نوازا گیا۔

قیادت اور عوام کے درمیان یہ منفرد ہم آہنگی تاریخ میں گہرائی سے جڑی ہے، جو مملکت کے قیام اور پاکستان کے وجود میں آنے سے بھی پہلے کی ہے، اور ہر گزرتی دہائی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے۔ جب میں اپنی آنے والی کتاب ’سعودی عرب اور پاکستان: ایک بدلتی دنیا میں دیرپا تعلق‘ میں اس منفرد رشتے اور اس کی بنیادی منطق پر تفصیل سے بات کروں گا، تو یہاں دفاعی میدان میں چند کلیدی سنگ میلوں کا مختصر خاکہ اس معاہدے کی تاریخی اہمیت کو سمجھانے کے لیے مفید ثابت ہو گا۔ سعودی عرب پاکستان دفاعی تعاون کی تشکیل 1960 کی دہائی میں شروع ہوئی جب قیادت شاہ فیصل اور صدر ایوب خان کے پاس تھی۔ اس مرحلے پر پاکستان نے سعودی شاہی فضائیہ کو تربیت اور مشاورتی مدد فراہم کی، جس نے ایک ایسے تعلق کی پہلی باضابطہ بنیاد رکھی جو بتدریج وسیع ہوتا گیا۔ 1967 میں پہلا باضابطہ دفاعی تعاون معاہدہ اسلام آباد میں وزیر دفاع شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز کے دستخط سے ہوا، جس نے سعودی عرب کے دفاع میں پاکستان کے تسلسل کے ساتھ کردار کا آغاز کیا۔ 1960 کی دہائی کے آخر اور 1970 کی دہائی میں اس معاہدے کو فوجی اہلکاروں اور مہارت کے بڑے پیمانے پر تبادلوں میں ڈھالا گیا۔

سینکڑوں پاکستانی افسر سعودی عرب میں ٹرینر، مشیر اور انجینیئر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے، جب کہ ہزاروں سعودی فوجی اور پائلٹ پاکستان میں منظم معاہدوں کے تحت تربیت یافتہ ہوئے۔ 1970 کی دہائی کے اوائل تک پاکستان نے سول ایوی ایشن اور ایئرلائنز کو بھی تکنیکی تعاون فراہم کیا، اور ساتھ ہی یمن کی سرحد کے ساتھ سعودی دفاعی قلعہ بندیاں کیں۔ یہ تعاون صرف تربیت تک محدود نہیں رہا۔ اس نے ایک ایسے سعودی عسکری ڈھانچے کی بنیاد رکھی جو پاکستانی تجربے اور پیشہ ورانہ مہارت پر گہرے طور پر انحصار کرتا تھا۔ 1980 کی دہائی میں دوطرفہ دفاعی تعلقات کے حجم اور دائرہ کار میں بڑی توسیع آئی۔ خطے کی بے چینی، خصوصاً سوویت یونین کی افغانستان پر چڑھائی اور ایران عراق جنگ، نے ریاض اور اسلام آباد کو 1982 کے معاہدے کے ذریعے اپنے فوجی تعاون کو منظم شکل دینے پر آمادہ کیا۔ اس پروٹوکول نے سعودی پاکستانی آرمڈ فورسز آرگنائزیشن قائم کی اور سعودی عرب میں پاکستانی افواج کی بڑے پیمانے پر تعیناتی کا موقع فراہم کیا۔ اپنے عروج پر 20 ہزار سے زائد پاکستانی فوجی، جن میں ڈویژنز اور بریگیڈ شامل تھے، تبوک اور مشرقی صوبے جیسے حساس علاقوں میں تعینات رہے، جہاں وہ تربیتی اور آپریشنل دونوں کردار ادا کرتے رہے اور ساتھ ہی سعودی عرب کو کسی بھی خطرے کے خلاف یقین دہانی فراہم کرتے رہے۔

یہ تعاون خلیجی جنگ 1990-91 تک مستحکم رہا، جب پاکستان نے ریاض کی درخواست پر 11 ہزار سے زائد فوجی سعودی عرب بھیجے۔ یہ افواج بنیادی طور پر دفاعی پوزیشنوں پر تعینات کی گئیں تاکہ سرحدوں اور مقدس مقامات کی حفاظت کی جا سکے، جیسا کہ 1982 کے پروٹوکول کے مطابق تھا۔ 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں تعاون کا مرکز انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس تبادلے کی طرف منتقل ہو گیا، خاص طور پر القاعدہ کے خلاف جنگ اور افغانستان میں عدم استحکام سے نمٹنے میں۔ 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں نے دونوں ممالک کے مشترکہ سکیورٹی خدشات کو اجاگر کیا اور عسکری اور انٹیلی جنس تعاون جاری رکھنے کی ضرورت کو مزید مستحکم کیا، چاہے دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ گذشتہ 15 برس میں دفاعی تعلقات میں مزید تنوع آیا تاکہ خطے اور دنیا کی نئی حقیقتوں کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے 2017 میں سعودی قیادت میں قائم اسلامی عسکری اتحاد برائے انسداد دہشت گردی کی کمان سنبھالی جس سے اجتماعی سکیورٹی میں پاکستان کی قیادت پر ریاض کے اعتماد کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس کے بعد سے مشترکہ فوجی، بحری اور فضائی مشقیں معمول کا حصہ بن گئی ہیں، جن کے ساتھ دفاعی پیداوار اور ٹیکنالوجی میں بڑھتا ہوا تعاون بھی شامل ہے۔

1982 کے معاہدے کے فریم ورک کے تحت پاکستانی فوجیوں اور فوجی مشیروں کی سعودی عرب میں تعیناتی بھی جاری ہے، جو بنیادی طور پر تربیتی اور مشاورتی کردار ادا کرتے ہیں، جبکہ دفاعی صنعتوں میں تعاون کے نئے راستے بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ تاریخی تسلسل واضح کرتا ہے کہ نیا معاہدہ اچانک نہیں ہوا بلکہ دہائیوں پر محیط بتدریج، پختہ تعاون کا حاصل ہے جو باہمی اعتماد اور مشترکہ سکیورٹی ضروریات پر مبنی ہے۔ یہ معاہدہ قابل اعتماد دفاع کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لیے ایک پائیدار سکیورٹی فریم ورک وضع کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ بدلتا ہوا علاقائی سکیورٹی ماحول اور عالمی جغرافیائی سیاست کے چیلنجز ریاض اور اسلام آباد سے تقاضہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کریں۔ مشترکہ مشقیں، جدید تربیت اور دفاعی صنعتوں میں شراکتی پیداوار اس اگلے مرحلے کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتی ہیں، جو وژن 2030 کے اس ہدف کے مطابق ہے کہ سعودی عرب اپنی خود انحصاری قائم کرے، جب کہ پاکستان کی جنگ آزمودہ فوجی مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اسی قدر اہم اس معاہدے کی سیاسی معنویت بھی ہے۔ یہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے سفارتی مقام کا اعتراف ہے۔ 

افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد صدر جو بائیڈن کے دور میں واشنگٹن میں پاکستان کی سٹریٹجک اہمیت کم ہو گئی تھی۔ تاہم اسلام آباد نے بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے تحت امریکہ کے ساتھ روابط دوبارہ شروع کیے جس سے سٹریٹجک تعلقات کی محتاط بحالی کا اشارہ ملا، اور ساتھ ہی چین کے ساتھ اپنی دیرپا شراکت داری قائم رکھی، خصوصاً سی پیک کے ذریعے۔ اسی دوران پاکستان نے ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ سیاسی، سکیورٹی اور اقتصادی تعلقات کو بھی مضبوط کیا، اور کثیرالجہتی سفارت کاری میں اپنی نمایاں حیثیت بنائی۔ جولائی 2025 میں بطور صدر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل، اسلام آباد نے پرامن تصفیہ تنازعات پر قرارداد کے لیے کامیابی سے حمایت حاصل کی اور نیویارک میں ’دو ریاستی حل‘ پر اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطح کی کانفرنس میں فعال کردار ادا کیا، جس کی مشترکہ طور پر صدارت فرانس اور سعودی عرب نے کی۔ یہ تمام عوامل مجموعی طور پر پاکستان کے مقام کو مملکت کی نظر میں بلند کرتے ہیں اور ایک باضابطہ دفاعی معاہدے کی منطق کو اجاگر کرتے ہیں۔

یہ دفاعی معاہدہ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کی اس مستقل مدد کے اعتراف کا عکاس بھی ہے جو اسے مشکل وقت میں فراہم کی گئی۔ چاہے وہ نرم شرائط قرضوں کی شکل میں ہو، تیل کی خریداری پر مؤخر ادائیگیوں کی شکل میں یا دیرپا انسانی و سیاسی امداد کی صورت میں۔ اس پس منظر میں سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ تسلسل اور تجدید دونوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسا تسلسل جو دہائیوں سے تشکیل پانے والے دفاعی تعلق کا ہے، اور ایسی تجدید جو اس شراکت داری کو غیر یقینی مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہے۔ 

ڈاکٹر علی عواض العسیری

ڈاکٹر علی عواض العسیری 2001 سے 2009 تک پاکستان میں اور 2009 سے 2017 تک لبنان میں سعودی عرب کے سفیر رہے۔ وہ اس وقت ریاض میں رصانہ، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ایرانیان اسٹڈیز کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ڈپٹی چیئر ہیں۔ انہوں نے بیروت عرب یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی حاصل کی۔ اپنی نمایاں سفارتی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی سرکاری اعزازات ملے، جن میں ہلالِ پاکستان بھی شامل ہے۔


وہ 'Combating Terrorism: Saudi Arabia’s Role in the War on Terror' (آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2009) کے مصنف ہیں۔ ان کی آنے والی کتاب 'Saudi Arabia and Pakistan: An Enduring Relationship in a Changing World') آئندہ ماہ شائع ہو گی۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
 

Post a Comment

0 Comments