All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

نانگا پربت کو ’کلر ماؤنٹین‘ کیوں کہتے ہیں؟

نانگا پربت یا ننگی پہاڑی کو علاقائی زبان میں 'دیامیر' بھی پکارا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے 'پہاڑوں کا بادشاہ'۔ یہ چوٹی پاکستان میں گلگت بلتستان کےعلاقے میں سطح سمندر سے 8126 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ نانگا پربت کو 'کلر ماؤنٹین' یا 'قاتل پہاڑ' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کیونکہ اس پر شرح اموات دنیا میں موجود 8000 میٹر سے بلند چوٹیوں میں سب سے زیادہ یعنی 23 فیصد ہے۔ عمران حیدر تھہیم بتاتے ہیں کہ دنیا میں 8000 میٹر سے بلند جتنی بھی 14 چوٹیاں ہیں ان پر سب سے پہلے سمٹ کی کوششیں 1895 میں نانگا پربت سے ہی شروع ہوئی تھیں۔ سنہ 1895 سے 1953 تک، پہلی سمٹ سے پہلے جتنے بھی کوہ پیما نانگا پربت کو سر کرنے جاتے (8-10 ایکسپیڈیشن) سب کے سب مر جاتے۔ سنہ 1953 تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ یہ 'کلر ماؤنٹین' ہے جو اسے سر کرنے جاتا ہے، مر جاتا ہے۔

پہلے سمٹ سے قبل تک کم از کم 31 کوہ پیما اس کا سمٹ کرنے کی کوششوں میں ہلاک ہوئے، پھر 1953 میں ڈرامائی طور پر پہلا سمٹ ہوا اور وہ بھی آکسیجن کے بغیر۔ آسٹریا کے مشہور کوہ پیما ہرمن بوہل نے تن تنہا اور آکسیجن کے بغیر 1953 میں اس قاتل پہاڑ کو سر کر لیا تھا۔ عمران حیدر کے مطابق یہ کسی بھی آٹھ ہزاری پہاڑ کو اکیلے سر کرنے کی سب سے پہلی اور شاید آج تک کی واحد مثال ہے۔ گو کہ سوئس الپائنسٹ Ueli Steck نے بھی انّاپورنا ساؤتھ کو 2013 میں اکیلے سر کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ دعویٰ کچھ لوگوں کے نزدیک متنازعہ ہے۔ اب تک نانگا پربت پر سمٹ کرنے والے کوہ پیماؤں کی کل تعداد 376 ہے جبکہ 91 اسے سر کرنے کی کوششوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ یعنی ہر چار میں سے ایک کوہ پیما اسے سر کرنے کی کوشش میں جان کی بازی ہارا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Post a Comment

0 Comments