All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سائبر اور فون کال فراڈ؛ محتاط رہیے

پاکستان میں جہاں لوگ ڈکیتی کی وارداتوں سے پریشان ہیں، وہیں سائبر کرائمز میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان دنوں ایک نئے قسم کے فراڈ سے لٹیروں نے کئی لوگوں کو اپنی رقم سے محروم کر دیا۔ اس نئی طرز کے فراڈ میں ملوث افراد واردات کے لیے عام شہریوں کو کال کرتے ہیں۔ انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس عوام کا ڈیٹا بھی موجود ہوتا ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا ریکی کا نظام بہت منظم ہے یا پھر ان افراد کی موبائل ریکارڈز تک رسائی ہے۔ ٹیلی فونک فراڈ میں ملوث نوسرباز اکثر اپنے آپ کو پولیس افسر ظاہر کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی شخص کو کال ملا کر اسے اس کے نام سے پکارتے ہیں اور بعد ازاں اسے یہ بتاتے ہیں کہ ’’آپ کے خاندان کا کوئی فرد ہمارے قبضے میں ہے، ہم تھانے سے بات کررہے ہیں‘‘۔ یہ گروہ اس قدر پلاننگ سے کام کرتا ہے کہ جس شخص کے متعلق یہ بتارہے ہوتے ہیں یہ افراد کال پر اس کی آواز بھی سناتے ہیں، جس میں وہ رو رو کر خود کو بچانے کی درخواست کر رہا ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جسے کال کی جاتی ہے اس کے اعصاب پر مکمل طور پر قابو پانے کے بعد اس سے پیسوں کو مطالبہ کیا جاتا ہے اور اسے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر مقدمہ درج نہیں کرانا چاہتے تو پیسوں کا انتظام کرو ورنہ یا تو اسے مار دیا جائے گا یا اس کیس میں حوالات میں ڈال دیا جائے گا۔

اس فراڈ میں ملوث افراد شہریوں سے ان کی حیثیت کے مطابق لاکھوں روپے تک بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی کئی افراد اس فراڈ کا شکار ہو چکے ہیں۔ انجان کال کا یہ طریقہ واردات اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ متاثرہ شخص کو سوچنے سمجھنے کا وقت ہی نہیں ملتا اور اس سے اچھی خاصی رقم بٹور لی جاتی ہے۔ بین الاقوامی ادارے کی تحقیق کے مطابق ایف آئی اے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے فراڈ میں ملوث اس گروہ میں سے اکثر افراد کا تعلق حافظ آباد، فیصل آباد، سرگودھا اور لاہور سے ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق فون کالز سے کیے جانے فراڈ کے کیسوں کی تعداد اب ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔ واضح رہے کہ سائبر کرائم ونگ میں اب فائیننشل فراڈ کے کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے کیس جعلی سم اور جعلی اکاؤنٹس کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں، جن کی بدولت یہ گروہ شہریوں کا ریکارڈ باآسانی حاصل کر لیتے ہیں۔ سائبر کرائم نے ٹیلی کام کمپینوں کے عملے کے ایسے کئی افراد کو گرفتار بھی کیا ہے جو ڈیٹا فراہم کرنے میں ملوث ہیں۔

یہ فراڈیئے کال کرتے ہوئے وی پی این ایپلی کیشن سے اپنی کالر لوکیشن تبدیل کر لیتے ہیں جس کے باعث ان کے مقام کا معلوم کرنا کسی حد تک مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسمارٹ فون کے بجائے سادہ فون کا استعمال کرتے ہیں اور واردات کے بعد اسے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک ہی دن میں سیکڑوں نمبرز پر کال کرتے ہیں جبکہ ان کی کامیابی کی شرح 8 سے دس فیصد ہے۔ ٹیلی فون کال سے فراڈ کرنے والے کئی افراد جنھیں ایف آئی اے نے گرفتار بھی کیا اور انہیں سزائیں بھی ہوئی ہیں۔ صرف گزشتہ سال 500 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا لیکن اس کے باوجود ان وارداتوں میں کمی نہیں آرہی۔ یقینی طور پر اس فراڈ میں ملوث افراد کا تعلق بھی آئی ٹی کے شعبوں سے ہو گا۔ ملک میں بے روزگاری کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ حکومتی سطح پر نوجوانوں کو تکنیکی تعلیم تو دی جارہی ہے لیکن ملازمت کے مواقعے موجود نہیں، جس کے نتائج اسی طرح نکلیں گے۔ جہاں حکومت اور ادارے ان افراد کو گرفتار کر کے کڑی سے کڑی سزا دیں، وہیں اس بات کی بھی کوشش کریں کہ آئی ٹی اور ہیکنگ کے ماہر نوجوانوں کو ملازمت کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ وہ کسی منفی سرگرمی میں شامل نہ ہوں۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ عام شہری اس فراڈ سے کیسے بچیں؟ شہریوں کو اس طرح کے فراڈ سے بچنے کےلیے خود بھی محتاط رہنا ہو گا۔ شہریوں کو چاہیے کہ فون کال پر کسی بھی قسم کی ذاتی معلومات فراہم نہ کریں اور اگر کسی کے اغوا یا گرفتاری کے متعلق کوئی کال آئے تو سب سے پہلے اس شخص سے رابطہ کریں اور تصدیق کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کریں۔ یہ افراد ایسے سافٹ ویئرز کا استعمال بھی کرتے ہیں جس سے نمبر بظاہر یو اے این لگتا ہے۔ اس حوالے سے بینک انتظامیہ کئی بار ہدایات جاری کر چکی ہیں کہ بینک کسی قسم کی ذاتی معلومات ٹیلی فون پر نہیں لیتا۔ شہریوں کو اس بات کو ذہن نشین کرنا ہو گا۔ آج کے اس جدید دور میں بھی معصوم لوگ ٹی وی چینلز کے گیم شو کے نام پر لٹ رہے ہیں، عوام کو اب احتیاط سے کام لینا ہو گا ورنہ مشکل حالات میں مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

شہریار شوکت

بشکریہ ایکسپریس نیوز


Post a Comment

0 Comments