رنی کوٹ 62 کلومیٹر پر پھیلا ہوا دنیا کا بڑے قلعوں میں سے ایک قلعہ ہے۔ کراچی سے پانچ سو بائیس کلومیٹرز کے فاصلے پر، دادو کی جانب سفر کرتے ہوئے راستے میں ایک چھوٹا قصبہ آتا ہے، جس کا نا م سن ہے۔ اس سے تھوڑا آگے بائیں طرف مڑتے ہوئے تقریبا 30 کلومیٹر کے فاصلے پر رنی کوٹ نظر آتا ہے۔ سندھ کے دیگر قلعے مختلف مٹیریل سے بنے ہیں۔ مثال کے طور پر مٹی کی پکی اینٹیں اور پتھر وغیرہ مگر یہ کوٹ مقامی پتھر سے بنا ہوا ہے، جس میں چونا، چیرولی اور مقامی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اس کوٹ میں اندر تین چھوٹے قلعے بھی موجود ہیں جن میں میری کوٹ، شیر گڑھ اور موہن کوٹ شامل ہیں۔ اس کے درمیان سے ایک برساتی نالہ گذرتا ہے، جس میں چشمے کا پانی بھی شامل ہے۔ جس کو ”نئیں” کہا جاتا ہے۔ سندھی میں” نئیں” کا مطلب برساتی نالہ ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کا نام رنی کوٹ پڑا۔ رنی کا مطلب ہے بہتا ہوا پانی۔ گرد واطراف میں یہاں کے گبول، رستمانی اور کھوسہ رہائش پذیر ہیں، جو کھیتی باڑی کا کام کرنے کے ساتھ مویشی پالتے ہیں۔ شہر کی زندگی سے دور یہ ایک پرسکون تفریحی مقام ہے، جہاں جا کر انسان تازہ دم ہو جاتا ہے۔ شہر کی آلودہ ہوا سے دور یہاں کی فریش ہوا میں سانس لینے کا لطف ہی الگ ہے۔ ایک کھلی جگہ آپ کا استقبال کرے گی۔
آپ سیڑھیوں پر چڑھ کر اوپر جائیں گے تو دور آسمان کے مٹیالے اور نیلے رنگ خوش آمدید کہیں گے۔ ہوا خوشگوار تھی اور اس کا جھونکا مقامی جھاڑیوں اور جنگلی پودوں کی خوشبو ساتھ لے کر آتا۔ اس قدامت میں ایک عجیب سحر تھا۔ میں فقط یہ سوچ رہی تھی کہ یہ کوٹ کس نے تعمیر کروایا ہو گا۔ اور وہ بھی ایک دور افتادہ جگہ پر۔ نامورآرکیلوجسٹ اشتیاق انصاری نے اپنی کتاب سندھ کے کوٹ اور قلعہ میں واضح تحریر کیا ہے کہ ’’اس قلعے کے قریب جاتے ہی طلسماتی کشش آپ کو گھیر لیتی ہے۔ یہ قلعہ سحرانگیز، پراسرار اور افسانوی داستان جیسا دکھائی دیتا ہے۔ کوٹ کے اند بڑی فصیلیں ہیں اور ان پر برج بنے ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ قلعہ پہاڑ پر تعمیر کیا گیا ہے، لہٰذا اوپر جانے کے لیے اونچی سیڑھیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ کوٹ کے اندر کنواں اور تالاب موجود ہیں۔ گائیڈ نے بتایا کہ ساسانی سلطنت جو فارس (موجودہ ایران) میں 622 غ سے 156 تک قائم رہی۔ ممکن ہے کہ حملہ آوروں سے بچنے کے لیے یہ قلعہ تعمیر کیا گیا ہو، یہ قلعہ کسی معمے سے کم نہیں ہے۔ ہم لوگ جیسے جیسے کوٹ کو دیکھتے گئے تجسس بڑھتا رہا کہ آخر اس کوٹ کے خالق کو اس کی تعمیر کا خیال کیسے آیا ہو گا۔ اس کی تعمیر کے حوالے سے کئی مفروضے تخلیق کیے گئے ہیں۔
رنی کوٹ پر سندھ کے محقق بدر ابڑو نے بھی کتاب لکھی ہے۔ دوسرے محققین بھی رنی کوٹ پر کام کرتے رہے ہیں، اگر قبل مسیح کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو قلعے کی تعمیر کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اسے یونانی، ساسانی اور کچھ محقق اسے ٹالپر دور سے منسوب کرتے ہیں۔ جب کہ ’’ سائرس اعظم’’کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ سائرس کا اصلی نام گورد یا کورش تھا اور عبرانی میں اس کا تلفظ خورس بتایا جاتا ہے۔ بسیار ارمیا اور دانیال کے صحائف میں جابجا اس نام کا ذکر آیا ہے۔ عربی میں خسرو یا خیسرو کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا پارسی نام چیہ تھا۔ یہ قدیم فارس (ایران) کا عظیم شہنشاہ تھا۔ جس کا عروج قبل مسیح 955 سے 530 تک رہا۔ اس کا شمار دنیا کے بڑے فاتحین میں ہوتا ہے۔ اس نے غیر معمولی شجاعت کے باعث ایک امیر سے ترقی کرتے ہوئے شہنشاہوں کی صف میں جگہ پیدا کی۔ اس نے تین بڑی سلطنتوں میڈیا، لیڈیا اور بابل کو زیر کر کے فارس کی چھوٹی ریاست کو عظیم الشان سلطنت میں بدل دیا۔ جو کورش کے حکومت کے خاتمے تک، سلطنت ایشیائے، کوچک اور اناطولیہ سے لے کر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے بعد، اس نے دریائے سیحوں (سندھ) اور دریائے جہوں کے درمیانی علائقے صغدیہ کو فتح کیا، یوں ان کی سلطنت ماورالنہر اور ہندوکش تک پھیل گئی۔
ممکن ہے کہ دی گریٹ وال آف سندھ (رنی کوٹ) سائرس اعظم یعنی کورش اعظم نے تعمیر کا حکم دیا ہو، بہرکیف اس کوٹ کی تعمیر ایک حیرت انگیز تخلیق ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد قلعہ ہے، جو اپنی بناوٹ، محل وقوع اور تاریخی تناظر میں ایک شہ پارہ ہے۔ کسی دور میں کہا جاتا تھا کہ یہاں پریاں آتی ہیں، لہٰذا اس کا نام پریوں کا تڑ پڑگیا۔ یعنی پریوں کا تالاب۔ وہاں پریاں تو نظر نہیں آئی مگر لینڈ اسکیپ خوبصورت تھا۔ خاموش اور باوقار۔ نیلے آسمان کے نیچے پہاڑ ماضی کی بھول بھلیوں میں گم تھے۔ اس کوٹ کے ارد گرد آبادی نہیں ہے۔ یہ بالکل الگ تھلگ اپنے وجود میں انفرادیت کا حامل ہے۔ یہاں کئی پوشیدہ غاریں ہیں۔ جن پر سائینٹیفک انداز میں کام ہونا چاہیے۔ آرکیالوجسٹ و انتھروپالوجسٹ اس پر مزید کام کریں۔ اس کوٹ کی بلند چوٹی کا نام ہنج چوٹی ہے، جو سطح سمندر سے دو ہزار فٹ بلند ہے۔ ہنج یعنی ہنس پرندہ ہے۔ میری دوست جو اس جگہ ہر موسم میں وزٹ کرتی رہی ہے اس کے بقول یہاں سورج ڈوبنے کا منظر حسین ہوتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس جگہ پورے چاند کی رات کا منظر بھی خواب ناک ہو گا۔
میرے خیال میں نوجوانوں میں تاریخ کا شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ وقت میں نوجوان تاریخ سے ناواقف ہیں۔ سندھ کی تاریخ کے مختلف ادوار میں منفرد رنگ ملتے ہیں۔ یہاں مستقل گائیڈ مقرر ہونا چاہیے۔ بڑے شہروں سے ٹورسٹ بسیں چلنی چاہئیں تاکہ لوگ اس حیرت انگیز کوٹ کو دیکھ سکیں۔ حالیہ سیلاب نے اس کوٹ کو جو نقصان پہنچایا ہے مگر انڈومینٹ فنڈ ٹرسٹ اس کوٹ کی بحالی کا کام کروا رہے ہیں۔ قلعے کو عالمی معیار کے مطابق محفوظ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے آثار قدیمہ کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ یہاں پر دنیا کے جدید قلعوں کی طرح سہولیات ہونی چاہئیں تاکہ آنیوالے لوگ یہاں رک کر آرام سے قلعے کو وزٹ کرسکیں۔
0 Comments