All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

زرعی ٹیکس کا حال زار

زرعی آمدنی پر ٹیکس کی باتیں ملک میں عشروں سے ہو رہی ہیں کیونکہ ہماری آبادی کا بہت بڑا حصہ زراعت پیشہ ہے لیکن اس ضمن میں کوئی قابل لحاظ پیش رفت اب تک نہیں ہو سکی ہے۔ اس حقیقت کا ایک واضح ثبوت عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ میں کیا گیا یہ انکشاف ہے کہ پاکستان میں 90 فیصد زراعت پیشہ افراد ٹیکس نہیں دیتے جبکہ زرعی آمدن پر انکم ٹیکس وصولی کی بہتری سے ٹیکسوں کا حصہ ایک فیصد جبکہ ٹیکس کے نظام میں تمام مطلوبہ اصلاحات سے دو فی صد تک بڑھ سکتا ہے۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس کی اس ابتر صورت حال کا سبب رپورٹ کے مطابق وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کی کمی ہے۔ ملک میں انکم ٹیکس کی مجموعی کیفیت کا اندازہ عالمی بینک کے ان اعدادوشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ گیا رہ کروڑ چالیس لاکھ برسر روزگار افراد میں سے صرف 80 لاکھ یعنی کل تعداد کا محض تقریباً 14 واں حصہ انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ ہے۔

عالمی بینک کے یہ اعداد وشمار یقینا حیرت انگیز نہیں۔ ہمارے نظام محصولات کے نقائص کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے بقول پاکستان میں صرف تنخواہ دار طبقہ پورا ٹیکس دیتا ہے جبکہ شہریوں پر ٹیکس لگانے کے فیصلے کرنے والے بیشتر ارکان پارلیمنٹ اور حکمراں خود برائے نام ٹیکس دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بالواسطہ ٹیکسوں کا بھاری بوجھ عام آدمی کو تمام اشیائے ضرورت پر جی ایس ٹی اور بجلی گیس پٹرول وغیرہ پر بھاری محصولات کی شکل میں ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک میں مہنگائی کے بے لگام ہونے کا بھی یہ ایک بڑا سبب ہے۔ بڑے زمیندار ، وڈیرے ، جاگیردار اور مقتدر طبقات اگر اپنی آمدنی پر پورا ٹیکس ادا کریں تو صورت حال میں یقینا مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ اس کے لیے معیشت کو مکمل طور پر دستاویزی بنانا ضروری ہے اور جدید ٹیکنالوجی نے اس عمل کو ماضی کے مقابلے میں بہت آسان کر دیا ہے چنانچہ اس سمت میں فوری اور نتیجہ خیز پیش قدمی کی جانی چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Post a Comment

0 Comments