آج کے دور کی بڑھتی ٹیکنالوجی ، نت نئی ایجادات، ابھرتی ہوئی انٹرٹینمنٹ اندسٹری اور آن لائن رسائی بلاشبہ بہت بڑی سہولیات میں شمار ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ ہر گھر کیلئے ایک بڑا چیلنج بھی بن چکی ہیں۔ عصر حاضر میں ٹیکنالوجی اور انٹرٹینمنٹ کے بچوں کے ساتھ تعلق کی بات کی جائے تو ''آن لائن گیمز‘‘ کا بے پناہ شوق اور اس کے منفی اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ مسئلہ مشرق، مغرب بلکہ پوری دنیا میں یکساں ہے۔ بچوں میں بڑھتی ہوئی آن لائن گیمز کی طلب ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ بلاشبہ گیم کو گیم سمجھا جائے تو فائدہ مند ہے، مگر اسے حقیقت اور ترجیح سمجھ لیا جائے تو نقصان ہی نقصان ہے، کیونکہ یہ کہاوت ایسے ہی مشہور نہیں کہ ''کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے‘‘ ۔ اس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ معصوم ہے، اس نے وہی سب سیکھنا ہے جو اس کے والدین یا ارد گرد کے دیگر افراد اسے سکھائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ معصوم بچہ کس طرح نفسیاتی چیلنجز دینے والی آن لائن گیمز کا شکار بنتا ہے؟ تو اس کے اصل قصور وار والدین خود ہیں۔ جو آغاز ہی سے روتے بچے کو چپ کروانے کیلئے موبائل فون یا آن لائن گیمز مہیا کر دیتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ میں بچہ جب ان گیمز کا استعمال ٹھیک سے کرنے لگے تو فکر مند ہونے کے بجائے فخر اور خوشی سے اسے بچے کی ذہانت سمجھتے ہیں۔ یہیں سے ترجیحات کا غلط تعین شروع ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف وسکانسن کے محقق شان گرین کی تحقیق کے مطابق آن لائن گیمز انسانی شخصیت کو تبدیل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہیں۔ ان گیمز کے استعمال کی نیچر ہی انسان کی شخصیت اور ذہنی کارکردگی پر پڑنے والے اثرات کا تعین کرتی ہے۔ جہاں یہ گیمز ذہن کو تیز اور چست بنا سکتی ہیں، وہیں ذہن کو ناکارہ بھی کر سکتی ہیں۔ اسی طرح آسٹریلیا میں ویڈیو گیمز کے بچوں کی ذہنی نشوونما پر اثرات کے حوالے سے جامع تحقیق کی گئی۔ جس میں دیکھا گیا کہ حد سے زیادہ آن لائن گیمز کھیلنے والے بچوں کے دماغ میں عجب سی کش مکش پیدا ہوتی ہے۔ ان کے ذہنوں میں احساس محرومی اور انتقام لینے کی خواہشات بھی دوسرے بچوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں ہونے والی تحقیق میں یہ پایا گیا کہ جو بچے روزانہ ایک گھنٹے سے کم ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں وہ دیگر بچوں کی نسبت معاشرے سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، لیکن جو بچے روزانہ پانچ گھنٹے سے زیادہ ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں وہ مجموعی طور پر اپنی زندگی سے کم مطمئن ہوتے ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق گیمز کا بے جا استعمال بچوں میں کلائی، گردن اور کہنی میں درد، نیند کی کمی اور خرابی، موٹاپا، کمزوری یا ہاتھوں میں بے حسی کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان کی بات کریں تو مئی، جولائی اور اگست میں لاہور میں گیم کھیلنے سے منع کرنے پر 16 ، 18 اور پھر 20 سالہ لڑکوں نے خودکشی کرلی تھی۔ لہٰذا آن لائن گیمز کی بے ہنگم عادت ذہن کو اس حد تک بھی خراب کر سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے ؟ تو بچوں میں آن لائن اور ویڈیو گیمز کی بڑھتی ہوئی عادت کو ختم کرنے کا حل یہ نہیں کہ گیم پر پابندی لگا دی جائے، جس کے باعث ٹیکنالوجی میں ہم پیچھے رہ جائیں اور بچوں کی انٹرٹینمنٹ ختم ہو جائے۔ اس کا حل ٹھوس پلاننگ میں چھپا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہم چین کی لے سکتے ہیں۔ جہاں بچوں کے آن لائن گیم کھیلنے کے لیے اوقات کو کم کر دیا گیا ہے۔ ان پابندیوں کے تحت 18 سال سے کم عمر بچے رات 10 بجے سے صبح 8 بجے تک آن لائن گیم نہیں کھیل سکتے۔ دن کے اوقات میں بھی انہیں صرف 90 منٹ آن لائن گیم کھیلنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسی طرح بچوں کو گیمز کے منفی اثرات سے بچانے کیلئے والدین پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ سب سے پہلے تو بچوں کی گیمز کا ٹائم ٹیبل بنائیں جس میں گیمز کے اوقات کو بتدریج محدود کیا جانا چاہیے۔ بچوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ گیم کو گیم سمجھیں حقیقت نہیں۔
0 Comments