All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

مہنگی بجلی سے نجات کیسے ممکن ہے؟

بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے نے جہاں انڈسٹری کا پہیہ روک دیا ہے وہیں صنعتکاروں، تاجروں، مزدوروں اور عام شہریوں کیلئے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سب سے بڑا معاشی مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ صورتحال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ گزشتہ تین دہائیوں کی بدانتظامی اور غلط پالیسیوں کا خمیازہ ہے جسے ہم آج بھگت رہے ہیں۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار کی استعداد 41 ہزار میگاواٹ ہے جس میں 10 ہزار 592 میگاواٹ ہائیڈل، 24 ہزار 95 میگاواٹ تھرمل، 3503 میگاواٹ نیوکلیئر اور 2783 میگاواٹ بجلی دیگر ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔ تاہم اگست 2023ء کے دوران بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کا حجم 25 ہزار 516 میگاواٹ ریکارڈ کیا گیا جو کہ ہماری مجموعی پیداواری استعداد سے تقریباً 15 ہزار 500 میگاواٹ کم ہے۔ اس صورتحال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ سردیوں کے موسم میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت 10 سے 12 ہزار میگاواٹ تک محدود ہو جاتی ہے یعنی ہماری مجموعی پیداواری استعداد کی 75 فیصد سے زائد بجلی کا کوئی مصرف نہیں رہتا۔

دوسری طرف نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2023ء میں فرنس آئل پر مبنی پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 28.7 روپے فی یونٹ تھی۔ اسی طرح درآمدی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی مدد سے پیدا ہونے والی بجلی 24.4 روپے فی یونٹ فروخت کی گئی۔ علاوہ ازیں ایران سے درآمد کی جانے والی بجلی کی قیمت بھی 10 روپے فی یونٹ سے بڑھکر 23.6 روپے فی یونٹ ہو گئی۔ اسی طرح مقامی گیس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی لاگت میں بھی 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت پانچ روپے فی یونٹ سے بڑھ کر 13.6 روپے فی یونٹ ہو گئی جبکہ کوئلے سے بننے والی بجلی کی قیمت 11.5 روپے فی یونٹ رہی۔ بجلی پیدا کرنے والے تمام ذرائع میں سب سے سستی بجلی نیوکلیئر پاور پلانٹس سے حاصل ہوتی ہے جس کی فی یونٹ قیمت 1.16 روپے ہے۔ نیپرا کے مطابق تمام ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی 8.96 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو فراہم کی گئی۔

تاہم بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بجلی چوری، لائن لاسز، سرکاری ملازمین کو فراہم کی جانے والی مفت بجلی اور پاور پلانٹس کو کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں کی جانے والی ادائیگیوں کا بوجھ صارفین پر ڈال کر بجلی کے نرخ دس روپے فی یونٹ سے بڑھا کر 30 سے 50 روپے فی یونٹ کر دیئے گئے ہیں۔ یہ اعداد وشمار اس بات کی غماضی کرتے ہیں کہ بجلی کی پیداواری لاگت، بجلی چوری اور لائن لاسز جتنے زیادہ بڑھیں گے اس کا اتنا ہی زیادہ بوجھ گھریلو اور صنعتی صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صنعتکاروں نے بجلی کے بھاری بلوں سے بچنے کے لئے شام پانچ بجے کے بعد سرکاری بجلی کا استعمال کم سے کم یا محدود تر کر دیا ہے جبکہ بعض بڑے کاروباری اداروں نے بھی شام پانچ بجے کے بعد دفاتر میں کام مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ اسی طرح گھریلو صارفین کی جانب سے بھی بجلی کا استعمال کم سے کم کرنے کے باوجود ہزاروں روپے کے بل آنے کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ 

پاکستان میں بجلی کے استعمال میں گھریلو صارفین کا حصہ 47 فیصد، انڈسٹری کا 28 فیصد جبکہ زراعت اور کمرشل صارفین کا حصہ آٹھ، آٹھ فیصد ہے۔ صارفین کی اس شرح کو دیکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سستی اور قابل تجدید توانائی یعنی سولر پاور کو فروغ دیا جاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سولر سے پیدا کی جانے والی بجلی کا مجموعی پیداواری استعداد میں حصہ دو فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اپنی ضرورت کی 59 فیصد بجلی تھرمل، 26 فیصد ہائیڈل اور 9 فیصد بجلی نیوکلیئر پاور پلانٹ سے حاصل کرتا ہے۔ اس حوالے سے اگر گزشتہ پانچ سال کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 2018 سے 2023 تک بجلی کی تھرمل پیداوار میں اضافہ اور ہائیڈل پیداوار میں کمی آئی ہے جبکہ قابل تجدید توانائی کی پیدوار میں اضافے کی شرح انتہائی سست ہے۔ پاکستان میں توانائی کا بحران اس وجہ سے بھی سنگین تر ہوتا جا رہا ہے کہ بجلی کی پیداوار کا زیادہ انحصار درآمدی تیل اور گیس یا پن بجلی پر ہے۔ 

عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کیساتھ ساتھ پاکستان کے آبی ذخائر سے بجلی کی پیداوار میں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کمی آ رہی ہے۔ اسلئے توانائی کے موجودہ بحران کے پیش نظر قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے بجلی کی پیداوار بڑھانے پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ سولر انرجی اس وقت جدید دنیا میں استعمال ہونے والے سب سے کم مہنگے توانائی کے ذرائع میں سے ایک ہے لیکن ہم تقریباً 600 میگاواٹ بجلی سولر سے حاصل کر رہے ہیں جو مجموعی پیداوار کا 1.6 فیصد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں توانائی کی طلب میں 2030ء تک آٹھ گنا اور 2050ء تک بیس گنا اضافہ متوقع ہے۔ ایسے میں سولر انرجی کے وسائل کو استعمال کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ پاکستان جغرافیائی طور پراس خطے میں واقع ہے جہاں سال بھر سورج کی روشنی موجود رہتی ہے۔ پاکستان کا جغرافیہ اور ماحولیاتی حالات سولر انرجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کیلئے مثالی ہیں۔ توانائی کے بحران کو نسبتاً کم وقت میں حل کرنے کیلئے بھی سولر انرجی انتہائی اہم ہے کیونکہ سولر پلیٹس اور پاور پلانٹس کوئی فضائی آلودگی یا گرین ہاؤس گیسں پیدا نہیں کرتے بلکہ سولر انرجی کے استعمال میں اضافے اور دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کے استعمال میں کمی سے ماحول پر مثبت اثر پڑتا ہے۔

کاشف اشفاق

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments