پاکستان کی نیشنل پالیسی یہ ہے کہ بھارت ہمارا دوست ملک نہیں ہے۔ پالیسی کے اِس مرکزی نقطے کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت میں کئی خونریز جنگیں اور لڑائیاں ہو چکی ہیں۔ دونوں متحارب ممالک میں زیادہ نقصان اور خسارہ کسے اُٹھانا پڑا، یہ مناظر بھی ہمارے سامنے ہیں۔ مسئلہ کشمیر اِس عداوت و عناد میں نیوکلیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ ’’حقیقت‘‘ تقریباً تسلیم کی جا چکی ہے کہ بزورِ بازُو ہم بھارت سے کشمیر کا غاصبانہ قبضہ نہیں چھڑا سکتے۔ بس مکالمے کی ایک کھڑکی باقی رہ گئی ہے۔ بھارت مگر پاکستان سے مکالمے پر بھی راضی نہیں ہے۔ عالمی سطح پر وہ ’’اونچے جوڑوں‘‘ میں ہے۔ G20 اور BRICS میں وہ مرکزی مقام حاصل کر چکا ہے۔ پاکستان کو ڈالروں کے حصول میں مشکل ترین حالات کا سامنا ہے جب کہ بھارت کے قومی خزانے میں 600 ارب سے زائد ڈالرز پڑے ہیں۔ امریکا کے ممتاز ترین ڈیجیٹل اداروں (مائیکروسوفٹ اور گوگل وغیرہ ) کے سی ای اوز بھارتی نژاد ہیں۔ ایسے ماحول میں بھارتی چاند گاڑی ( چندریان تھری) چاند کے جنوبی قطب پر کامیابی سے اُتری ہے تو بحیثیتِ مجموعی ہم پاکستانیوں کے دل مایوسیوں سے بھر گئے ہیں ۔ ’’چندریان تھری‘‘ کی کامیابی کے بعد بھارت نے 2 ستمبر 2023 کو Aditya-L1 نامی نیا راکٹ خلا میں چھوڑا ہے جو سورج پر تحقیقات کرے گا۔
بھارتی خلائی ادارے (ISRO) کا کہنا ہے کہ یہ راکٹ 15 لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے سورج کی ماہیت اور حقیقت کا کھوج لگائے گا ( یاد رہے Aditya کا معنیٰ ہی سورج ہے) اپنا احساسِ محرومی اور اپنی فرسٹریشن دُور کرنے کے لیے ہمارے سوشل میڈیا میں عجب عجب تبصرے سامنے آئے ہیں۔ مثلاً: ’’بھارتی چاند پر تو پہنچ گئے ہیں مگر جنت میں نہیں پہنچ سکتے ۔‘‘…’’چاند ایک عظیم شئے ہے۔ اِسے دیکھ کر ہم روزہ رکھتے اور عیدین مناتے ہیں۔ اِس پر پاؤں رکھنا گناہِ کبیرہ ہے۔‘‘… ’’میں بحیثیت محب وطن پاکستانی چاند پر ناجائز بھارتی قبضے کی شدید مذمت کرتا ہُوں ۔‘‘…’’انڈیا جا جا، چاند سے نکل جا۔‘‘ راقم نے 25 اگست کو اِنہی صفحات پر ’’چندریان تھری کی کامیابی‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا تو کئی اطراف سے مجھے ، بذریعہ ای میلز، مطعون کیا گیا کہ ’’ دشمن بھارت کی اِس کامیابی کا ذکر کر کے آپ نے قومی غیرت کا ثبوت نہیں دیا۔‘‘ ایک معزز قاری، صدیق اعوان، نے لکھا: ’’بھارت میں اتنی استعداد و لیاقت کہاں کہ اکیلے ہی اچانک اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لے ؟ درحقیقت بھارت کے ساتھ اِس کامیابی میں امریکا اور اسرائیل کا اشتراک نظر آتا ہے۔‘‘ کینیڈا سے ایک اور قاری ، ڈاکٹر شاہد، نے لکھا: ’’بھارت نے، ترقی یافتہ ممالک کی طرح، یہ کامیابی اس لیے حاصل کی ہے کہ اُس نے مذہب اور سائنس کو جد ا جدا کر رکھا ہے۔‘‘
سچی بات یہ ہے کہ بھارت کے چاند پر پہنچ جانے کی کامیابی، حسد اور جلن سے، ہم پاکستانی ہضم نہیں کر پارہے۔ لیکن ایک پنجابی محاورے :’’ ہانڈی اُبل کر اپنے ہی کنارے جھلسائے گی‘‘ کے مصداق ، بھارت کے خلاف حسد سے جل بھن کر ہم اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ ایسے موقع پر قومی سطح پر یہ مباحث سامنے آتے کہ بھارت کے مقابل پاکستان کا خلائی پروگرام کس مقام پر کہاں کھڑا ہے ؟ اگر کھلے قلب و ذہن کے ساتھ ایسا کوئی ایک ہی بڑا مباحثہ سامنے لایا جاتا تو مایوسیوں میں گھری اِس قوم کو کم از کم یہ تو معلوم ہو سکتا کہ بھارت تو چاند کو فتح کر کے دُنیا کی چوتھی مون پاور بن گیا ہے، مگر پاکستان اپنے خلائی پروگرام کے تحت چاند پر پہنچنے کی صلاحیت کب حاصل کر پائیگا؟ اِس پس منظر میں پاکستان کے ایوانِ بالا میں جماعتِ اسلامی پاکستان کے اکلوتے سینیٹر، جناب مشتاق احمد خان، نے پاکستانی سینیٹ کے ذمے داران کے سامنے تین اہم سوالات رکھے ہیں: ’’(1) کیا وزیر انچارج برائے کابینہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ کیا SUPARCO ( پاکستان کا سرکاری خلائی ادارہ) کا چاند کی تسخیر کا کوئی منصوبہ ہے؟ اگر ہے تو کب تک؟ (2) اسپارکو کے جولائی 2022 سے جون 2023 تک بجٹ اور اخراجات کی تفصیلات کیا ہیں؟ (3) اسپارکو کے گزشتہ 5 سربراہ کون رہے ہیں؟اُن کے نام، تعلیمی قابلیت اور سائنسی و خلائی مہارتوں کی تفصیلات دی جائیں۔‘‘
اگر سینیٹر جناب مشتاق احمد خان کے مذکورہ بالا سوالات کے درست جوابات سامنے آ جاتے ہیں تو پاکستان کے 25 کروڑ عوام جان سکیں گے کہ عالمی خلائی پروگرام میں پاکستان کس درجے پر کھڑا ہے ؟ اور یہ کہ بھارتی چاند گاڑی کے مقابلے میں پاکستان کی چاند گاڑی کب تک چاند کی سطح پر اُتر سکے گی؟ اِن سوالات کے جوابات آنے پر ہمیں یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ خلائی دوڑ میں پاکستان کیوں بھارت سے پیچھے رہ گیا ؟ حالانکہ پاکستان کا خلائی پروگرام تو بھارتی خلائی پروگرام سے تقریباً آٹھ برس پہلے شروع ہُوا تھا۔ اُسی عرصے میں پاکستان نے خلا میں اپنا پہلا راکٹ (RAHBER1) چھوڑ کر امریکا اور رُوس کو بھی حیران کر دیا تھا۔ ساٹھ کے عشرے میں جس وقت پاکستان نے ’’رہبر وَن‘‘ خلا میں کامیابی سے بھیج کر NASA کو بھی ششدر کر دیا تھا، اُس وقت پاکستان کے پاس طارق مصطفیٰ، ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی، پروفیسر عبدالسلام، انیس اے کے شیروانی، ایس این نقوی اور ایم رحمت اللہ ایسے ذہین ترین اور عالمی شہرت یافتہ سائنسدان موجود تھے۔
پھر کیا وجہ بنی کہ آج پاکستان کا خلائی ادارہ مذکورہ بالا سائنسدانوں اور خلائی ماہرین سے خالی ہو گیا ہے ؟ نوبت ایں جا رسید کہ بھارتی ’’چندریان تھری‘‘ کی کامیابی پر ہم خالی ذہن، خالی جھولی اور خالی دل کے ساتھ بس بھارت کو کوسنے دے رہے ہیں! پاکستان نے SUPARCO کی زیر نگرانی، تیس سال بعد، 1990 میں بھی ایک اور سٹیلائیٹ ’’بدر وَن‘‘(Badr1) خلا میں چھوڑا تھا۔ اِس مہم میں پاکستان نے امریکا اور چین کا تعاون حاصل کیا تھا۔ اِس کے بعد ہمارے خلائی ادارے میں بالکل خاموشی طاری ہے، حالانکہ اِس ادارے کے اخراجات بدستور بڑھ رہے ہیں۔ کام مگر؟ رواں لمحات میں امریکا کا سالانہ خلائی بجٹ 92 ارب ڈالرز، رُوس کا 4 ارب ڈالرز، چین کا 12 ارب ڈالرز اور بھارت کا 75 ملین ڈالرز ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ دُنیا کی چار مون پاورز میں سے بھارت واحد ملک ہے جس نے انتہائی کم بجٹ میں چاند کو فتح کرنے میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ اِس دوران قدم قدم پر بھارت خلائی دوڑ میں آگے ہی آگے بڑھتا رہا ہے اور پاکستان قدم قدم پر پیچھے لڑھکتا رہا۔
پاکستان کے اِس زوال کی بڑی وجہ کیا بنی؟ اِس سوال کا ایک جواب ہمارے ایک انگریزی معاصر نے اپنے اداریئے میں یوں دیا ہے: ’’ہمارے خلائی پروگرام، اسپیس ایجنسی اور ادارے کی سربراہی ’’ریٹائرڈ حضرات‘‘ کے سپرد رہی ہے جن کا تعلق خلا اور جدید خلائی سائنس سے نہ ہونے کے برابر تھا۔‘‘ نتیجہ بھی پھر وہی نکلنا تھا جو آج ہمارے سامنے ہے۔ بھارت سرخرو ہُوا ہے اور ہمارے ہاتھ ندامت، پسپائی اور احساسِ کمتری کے سوا کچھ نہیں لگا۔ ہم نے قومی سطح پر میرٹ کی جس طرح مٹی پلید کی ہے، جس طرح اعلیٰ سطح پر مجرمانہ اقربا پروری کی ہے اور جس بیدردی سے اپنے ذہین افراد کی توہین کی ہے، اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک سے ’’برین ڈرین‘‘ ہُوا ہے ۔ اہل اور ذہین افراد ملک سے بھاگ اُٹھے ہیں ۔ جو ذہین افراد چند ایک بچ گئے ہیں، وہ بھی اُڑنے کی تیاریوں میں ہیں!
0 Comments