All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

مستقبل کا معاشی منظر نامہ کیا ہو گا ؟

پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران جو اتار چڑھائو آیا ہے اس نے ملک کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے۔ تاہم اس دوران یہ حقیقت پوری طرح کھل کر عیاں ہو گئی ہے کہ معاشی معاملات کو مستقبل میں سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھانا ممکن نہیں رہے گا۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ملک کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کیلئے ناصرف حکومت کو بھرپور تعاون فراہم کیا ہے بلکہ مستقبل کیلئے بھی حکمت عملی مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے جو سب سے اہم قدم اٹھایا گیا ہے وہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کو ملک میں لانے کیلئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام ہے۔ اس کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد مشرق وسطیٰ کے ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے سہولتیں فراہم کرنا ہے تاکہ انہیں افسر شاہی کے روایتی طریقہ کار اور سرخ فیتے کی وجہ سے پیش آنے والی رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا حصہ بنایا گیا ہے جس سے سرمایہ کاروں کے سیکورٹی سے متعلق خدشات دور کرنے میں بھرپور مدد ملے گی علاوہ ازیں یہ اقدام دفاع، زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں خلیجی ممالک سے حکومتی سطح پر سرمایہ کاری کے عمل کو بھی بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ 

یہ ادارہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے باوجود معیشت کو مستحکم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کونسل کی تشکیل سے پہلے ہی دوست ممالک پاکستان میں 20 سے 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کر چکے ہیں۔ یہ کونسل ون ونڈو آپریشن کی طرز پر کام کرے گی اور اس کے تحت وہ تمام ادارے جن کا کسی بھی طرح بیرونی سرمایہ کاری سے تعلق ہے وہ ایک چھت تلے اکھٹے کر دیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں تین اعلیٰ سطحی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جن میں سب سے اوپر ایپکس کمیٹی ہے جس کی سربراہی وزیر اعظم کریں گے جبکہ اس کے ممبرز میں کابینہ کے اراکین اور آرمی چیف شامل ہیں۔ اس کے بعد ایگزیکٹیو کمیٹی ہے جس میں وفاقی وزرا، صوبائی حکومتوں کے نمائندے اور وفاقی حکومت کے ادارے شامل ہیں جبکہ تیسری عمل درآمد کمیٹی ہے جو ہر ہفتے اجلاس کر کے بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے درپیش مشکلات کے ازالے کیلئے کئے جانے والے اقدامات پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گی۔

اس حوالے سےامید کی جا رہی ہے کہ اگلے پانچ سے سات سال میں 112 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی جس کیلئے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت دیگر دوست ممالک کا کردار اہم ہو گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان ممالک سے یہ بات پہلے سے طے ہو گئی ہے کہ وہ کن شعبوں میں سرمایہ کاری کریں گے۔ اس سلسلے میں جن شعبوں پر زیادہ توجہ دی جائے گی ان میں زراعت، معدنیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سرمایہ کاری کے یہ وعدے عملی شکل اختیار کر گئے تو 2035ء تک ملک کی جی ڈی پی ایک کھرب ڈالر ہو جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانیوں کی آمدنی اور معیار زندگی میں بھی خاطر خواہ بہتری آئے گی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کی 40 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور کاروبار میں آسانی کے انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن کئی سال سے ایک ہی سطح پر برقرار ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں بیرونی سرمایہ کاری کو پاکستان لانے کیلئے بڑی تندہی اور لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں اگر اگلے چند مہینوں میں 25 سے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو ہی عملی شکل دے دی جائے تو عام انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں کی تشکیل کیلئے مناسب ماحول میسر آ جائے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان کو جن سنگین معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اس سے عہد برآہ ہونے کیلئے ایسی ہی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ضرورت تھی جو اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے کسی اور اتھارٹی کی منظوری کی محتاج نہ ہو۔ تاہم خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل سے متعلق اب تک سامنے آنے والی معلومات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس کا بنیادی کام حکومتی سطح پر دوست ممالک سے سرمایہ کاری کا حصول ہے جبکہ نجی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے کے حوالے سے اس کونسل کی کوئی حکمت عملی تاحال سامنے نہیں آ سکی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو معاشی خودمختاری سے ہمکنار کرنے کیلئے نجی شعبے سے آنے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے اور سہولتیں فراہم کرنے کیلئے بھی لائحہ عمل تیار کیا جائے۔

پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے ترجیحی اسپیشل اکنامک زونز میں ون ونڈو سنٹرز قائم کر کے اس سمت میں اقدامات کا آغاز کیا جا سکتا ہے جہاں تمام متعلقہ سرکاری اداروں اور اتھارٹیوں کے نمائندے موجود ہوں تاکہ غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاروں کو صنعتی منصوبے شروع کرنے کیلئے مختلف اداروں سے این او سی یا اجازت ناموں کے حصو ل کیلئے ایک دفتر سے دوسرے دفتر چکر لگانے سے نجات مل سکے۔ اس سے عوام کو روزگار اور بہتر طرز زندگی کی فراہمی سے ملک کی معاشی بنیادوں کو بھی مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔

کاشف اشفاق 

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments