حال ہی میں ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر نفسیات نے پاکستانی سیاست دانوں کے حوالے سے دلچسپ مگر معنی خیز تبصرہ کیا ہے کہ یہ لوگ زیادہ ترلفظ ’’میں‘‘ کا استعمال کرتے ہیں جس میں ایک انا اور غرور چھپا ہوتا ہے جبکہ کم رہنما ہیں جو لفظ ہم استعمال کرتے ہیں جس میں عاجزی اور انکساری نظر آتی ہے۔ وہ اکثر اپنے لئے ایسی اصطلاحیں استعمال کرنا پسند کرتے ہیں جس سے آپ کو بادشاہت یا دورِ مغلیہ کی یاد آجائے۔ انہیں تعریفیں اچھی لگتی ہیں تنقید وہ صرف اپنے مخالفین کیلئے سننا چاہتے ہیں۔ وہ عہدہ لینے کیلئے چاہے وہ اقتدار ہی کیوں نہ ہو اپنے نظریہ کو بھینٹ چڑھا سکتے ہیں۔ یہی وہ چند وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستان میں پہلے دن سے جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ ہمارے ہاں سیاست میں اس طرح کے ٹائٹل اکثر پائے جاتے ہیں تاحیات چیئرمین، شریک چیئرمین، امیر، قائد تاکہ کسی نہ کسی حوالے سے عہدہ الگ نہ ہو۔ ہم اکثر رہنمائوں کی زبان سے جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا کا نام سنتے رہتے ہیں مگر شاید ہی ان میں سے کچھ نے اس کی پوری زندگی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہو۔ اپنی قوم کو غلامی سے آزاد کرانے کے بعد، جس کیلئے اس نے تقریباً تین دہائی قید و بند کی صوبتیں برداشت کیں پھر اس ملک کا صدر بنا تو، اس نے کسی مخالف کے خلاف انتقامی کارروائی تو درکنار کسی گورے کو اس کی ملازمت سے بھی برطرف نہیں کیا اور دنیا کیلئے ایک مثال بن گیا۔ ایک ٹرم صدارت کی پوری کرنے کے بعد چلا گیا۔
ہماری سیاست بظاہر مغربی جمہوریت کے گرد گھومتی ہے مگر محض نام کی حد تک نہ وہ جمہوریت اور نہ ہی وہ قدریں آپ کو ان جماعتوں یا قائدین میں نظر آئیں گی حالانکہ ہمارے بیشتر بڑے سیاست دان، وزرائے اعظم مغرب میں پڑھے ہیں اور اکثر وہیں رہنا بھی پسند کرتے ہیں ماضی میں بھی اور حال میں بھی ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ لندن پلان، حقیقت میں ہم بادشاہت سے متاثر ہیں اگر وہ نہ بن سکیں تو کم از کم بادشاہ گر کہلائیں۔ یہ وہ کمزوریاں ہیں جو ہماری سیاست کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ ہمارے اکثر بڑے سیاست دان جو وزارت عظمیٰ یا صدارت کے منصب تک گئے کسی نہ کسی انجانے خوف کا شکار نظر آئے۔ بہت سے معاملات میں تو وہ اپنے قریبی ساتھیوں پر بھی یقین نہیں کرتے۔ مثلاً وہ وزیراعظم یا صدر بن بھی جائیں تو پارٹی عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے دونوں عہدے اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ ان کی پارٹی کا آئین خود کہتا ہے کہ الیکشن جیتنے اور حکومت بنانے کی صورت میں دونوں عہدے الگ کر دیئے جائیں، جس کی بنیادی اسپرٹ یہی ہوتی ہے کہ پارٹی اپنی حکومت پر نظر رکھے۔ یہ ’’سیاسی بیماری‘‘ ہماری تمام بڑی جماعتوں میں پائی جاتی ہے۔ ایک اور رجحان جس کی جمہوری معاشروں میں کم مثال ملتی ہے وہ صدر یا وزیراعظم کے منصب پر رہنے کے باوجود وہ دوبارہ قومی اسمبلی یا سینٹ میں رہنا پسند کرتے ہیں تاکہ دوبارہ اس عہدے تک پہنچنے کی دوڑ میں شامل ہو سکیں۔
یہ وہی انجانا خوف ہے جو وزیراعظم کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کس کو آرمی چیف لایا جائے یا اعلیٰ عدلیہ میں چیف جسٹس کون ہو گا۔ کئی سال بعد سپریم کورٹ نے خاص حد تک اس معاملے کو حل کر لیا گو کہ وہاں دیگر مسائل موجود ہیں جس کی وجہ سے نظریہ ضرورت دفن ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہر وزیر اعظم چاہتا ہے کہ کوئی ایسا آرمی چیف لایا جائے جو ملک کا نہیں اس کا دفاع کرے۔ اب بدقسمتی سے چیف صاحبان میں بھی توسیع لینے کی وبانے خاصہ نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ٹیک اوور ہو جائے تو وہ خود ہی توسیع لیتے رہے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت اگر تاریخ سے سبق سیکھتی تو جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف آرمی چیف نہ بنتے۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیا گیا پاکستان میں اس کو مضبوط کیا گیا اور یوں جاگیرداروں نے سیاست کو اپنی جاگیر سمجھ لیا۔ سابق مشرقی پاکستان میں اس نظام کو ختم کیا گیا مگر جنہوں نے کیا ان کی حکومت یعنی جگتو فرنٹ کا ہی خاتمہ کر دیا گیا۔ موروثیت نےصرف پاکستان نہیں بلکہ پورے علاقے کی سیاست کو نقصان پہنچایا۔ بھارت میں آج بی جے پی اس سیاست کا ردعمل ہے جو ظاہر ہے مثبت نہیں مگر آخر گاندھی کی وراثت کب تک چلتی۔
عین ممکن تھا کہ اگر پاکستان میں بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی یا بھارت میں اندرا گاندھی قتل نہ کی جاتیں تو آج سیاست مختلف ہوتی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت نہ ہوتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا میں اکثر مقبول سیاسی رہنما اور صدر یا وزیراعظم کے قتل نے ان کے چاہنے والوں کو پارٹی کے بجائے خاندانوں سے قریب کر دیا۔ بدقسمتی سے جماعتوں میں اگر جمہوریت مضبوط ہوتی تو جاگیردارانہ اور موروثیت کی سوچ پروان نہ چڑھتی۔ میاں نواز شریف جب سیاست میں لائے گئے تو عام خیال یہ تھا کہ وہ موروثی اور جاگیردارانہ سیاست کو کمزور کریں گے مگر آج سب سے زیادہ ان کے خاندان کے لوگ مسلم لیگ کے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج پارٹی میں مریم نواز کو مشکل کا سامنا ہے۔ کسی خاندان کے لوگوں کا سیاست میں آنا بری بات نہیں مگر چند سال گزارنے کے بعد اگر آپ کو بڑا عہدہ مل جائے تو اندر سے آوازیں بلند ہونا قدرتی عمل ہے۔
ایم کیو ایم جب معرض وجود میں آئی تو وہ شہری سندھ کے نوجوانوں پر مشتمل تھی ایک ایسی جماعت میں بانی یا قائد کی اصطلاح کا ہونا ہی غلط تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم جیسی شہری جماعت میں بھی جمہوریت پروان نہ چڑھ سکی۔ عمران خان اس وقت پاکستان کے سب سے مقبول رہنما ہیں اور پچھلے 26 سال سے چیئرمین چلے آرہے ہیں۔ تحریک انصاف میں 2013 میں واحد الیکشن ہوئے۔ آج بھی خان صاحب کو پارٹی پر اتنا اعتماد نہیں کہ وہ الیکشن میں ٹکٹ دینے کے حوالے سے کسی اور پر یقین کر سکیں اسی لئے انہوں نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اس بار پارٹی کے ٹکٹ کے حوالے سے انٹرویو اور فیصلہ میں کروں گا۔ اب آپ غور کریں کہ ہمارے سیاسی رہنما جاگیردار ہوں، سردار، سرمایہ دار یا شہری بابو ہی کیوں نہ ہوں یہ’ ’میں‘‘ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ جب تک جان میں جان ہے عہدہ انہیں کے پاس رہے گا۔ اسی کلچر نے پاکستان کی سیاست کو کمزور کیا ہے۔ آئین پاکستان کا ہو یا کسی جماعت کا اس کی حیثیت ہمارے سیاسی معاشرے اور ذہینت میں ایک کاغذی ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔ اب اس کی چاہے آپ گولڈن جوبلی منا لیں یا ڈائمنڈ جوبلی۔
0 Comments