All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سیاسی انتشار فوری ختم نہ ہوا تو

ماہرینِ اقتصادیات بہتر طور پر بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کا معاشی بحران ملک کو کس طرف لے جا سکتا ہے۔ تاریخ اور سیاست پر نظر رکھنے والے بھی اندازے لگا رہے ہوں گے کہ موجودہ سیاسی انتشار کیا تباہی لا سکتا ہے۔ میں تو ایک عام آدمی کی حیثیت سے حالات کو دیکھ رہا ہوں اور آنکھوں میں مایوسی کا اندھیرا چھا رہا ہے۔ معاشی بحران کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام کے اثرات جو عام آدمی پر مرتب ہو رہے ہیں، ان کا درست اندازہ نہیں لگایا جا رہا ۔ معاشی بحران سیاسی عدم استحکام میں اضافہ کر رہا ہے اور سیاسی عدم استحکام معاشی بحران کو گہرا کر رہا ہے ۔ تباہی کا پہیہ چل پڑا ہے، جسے کوئی روکنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ اس سے ملک کی اکثریتی آبادی کچلی گئی ہے۔ اب صرف محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً بڑی آبادی کے لئے دو وقت کی روکھی روٹی کھانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ صوبائی حکومتوں کی طرف سے سستا آٹا لوگوں کو مہیا کرنے کیلئے جہاں ٹرک کھڑا ہو جاتا ہے، وہاں میلوں تک لوگوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔

قطار میں کھڑے وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں، جنہیں پانچ یا دس کلو آٹے کا تھیلا 65 روپے فی کلو کے حساب سے مل جاتا ہے۔ کچھ لوگ تو قطار میں کھڑے کھڑے زندگی سے بھی آگے نکل گئے اور ہر عذاب سے نجات پالی۔ سڑکوں پر، شاہراہوں پر ، بازاروں میں ، گلیوں میں، پارکس میں ہر جگہ بھیک مانگنے والوں کی یلغار ہوتی ہے۔ اب تو سفید پوش لوگ بھی ہاتھ پھیلائے سڑکوں پر آگئے ہیں۔ کراچی میں تو یہ صورت حال ہے کہ ہر آدھے گھنٹے میں پولیس کی طرف سے اس طرح کی خبریں جاری ہو رہی ہوتی ہیں کہ ڈکیتی مزاحمت کے دوران اتنے لوگ جاں بحق یا زخمی ہو گئے، لوگوں نے ڈاکووں کو پکڑ کر مار یا زخمی کر دیا اور پولیس مقابلے میں ڈاکو یا پولیس والے ہلاک یا زخمی ہو گئے۔ خیراتی لنگر خانوں پر مفت کھانا کھانے والوں کا ہجوم ہوتا ہے اور فلاحی اداروں کی طرف سے راشن کی تقسیم کے وقت جم غفیر ہوتا ہے۔ راشن لینے والوں میں زیادہ تر سفید پوش گھروں کی خواتین شامل ہوتی ہیں۔

میرے پاس وہ الفاظ اور وہ تخیلات نہیں، جن کے ذریعہ میں غربت اور اس کے سماج پر اثرات کی تصویر کشی کر سکوں۔ بس اتنا کہوں گا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسے حالات نہیں دیکھے ۔ جنگوں اور قحط میں بھی ایسا نہیں ہوتا ہو گا۔ صرف غریب آبادی ہی نہیں، مڈل کلاس کی بھی چیخیں نکل گئی ہیں۔ جو لوگ اپنی کار کے بغیر سفر ہی نہیں کرتے تھے، اب وہ کار گھر سے نکالتے ہوئے 20 بار سوچتے ہیں یا پبلک ٹرانسپورٹ سے چلے جاتے ہیں۔ میں اسٹاک ایکسچینج اور اسکی working کے بارے میں خود دیکھنا چاہتا تھا، اس سلسلے میں میرا پچھلے ہفتے اسٹاک ایکسچینج کی ایک بڑی کمپنی کے مالک علی شیرازی کیساتھ اسٹاک ایکسچینج جانا ہوا۔ وہاں کئی دوستوں سے ملاقات ہوئی، جو صنعت کار بھی ہیں اور شیئرز مارکیٹ کے بڑے تاجر بھی ہیں۔ انہوں نے صرف کراچی میں صنعتیں بند ہونے اور صنعتوں اور کارخانوں سے ملازمین کی چھانٹی کے جو اعداد و شمار بتائے ، وہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔ 

ہر لمحے لوگوں کا روزگار ختم ہو رہا ہے۔ جس دن میں اسٹاک ایکسچینج گیا ، اس دن اسٹاک مارکیٹ 1400 پوائنٹس تک گر گئی ۔ وہاں جا کر یہ بھی معلوم ہوا کہ اب تو ہر ادارے ( صنعت یا کمپنی ) کے مالکان نے اپنے شیئرز خود خریدنا شروع کر دیئے ہیں ۔ گاڑیاں بنانے والی بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنی پروڈکشن بند کر دی ہے ۔ رئیل اسٹیٹ کی مارکیٹ کریش ہو گئی ہے۔ بازاروں میں دکاندار رو رہے ہیں کیونکہ عام لوگوں کی قوت خرید ختم ہو گئی ہے۔ لوگوں کیلئے علاج بہت مہنگا ہو گیا ہے ۔ دیگر بنیادی سہولتیں بھی انہیں میسر نہیں ہیں۔ غربت ، بے روزگاری اور بیماریوں سے لڑنے والے عوام کو سیاسی انتشار کے ذریعہ مزید مایوسی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اگر معاشی بحران پر قابو پالیا جاتا تو صورت حال یہ نہ ہوتی۔ سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے اس حوالے سے بہت تاخیری فیصلے کئے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے میں بہت تاخیر کی گئی۔ روس سے پٹرولیم مصنوعات کی خریداری کا معاملہ بھی بہت دیر سے طے کیا گیا۔ 

سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ کرپشن کرپشن اور چور چور کا شور مچا کر ہم نے سیاست دانوں کو پوری دنیا میں بدنام کر دیا ہے۔ ہمارے دوست ممالک بھی اب ہم پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ چین اور سعودی عرب بھی اب شرائط عائد کر رہے ہیں کہ پاکستان پہلے اپنی پرفارمنس دکھائے ، پھر وہ قرض یا امداد دیں گے اور سرمایہ کاری کریں گے۔ دنیا اب ان پر بھی اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ، جنہوں نے اصل اقتدار اپنے پاس رکھنے کیلئے سیاست دانوں کو بدنام کیا۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت یا قومی حکومت بنا کے ( جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں) حالات بہتر کئے جا سکتے ہیں، وہ بھی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ پاکستان کے بارے میں دنیا کے اندازے اس قدر غلط نہیں ہیں، جس قدر ہمارے مقتدر حلقوں کے تھنک ٹینکس کے اندازے ہیں۔ اگر فوری طور پر حالات کو مزید خراب ہونے سے روکنا ہے اور ’’ Damage Control ‘‘ کرنا ہے تو سیاسی لڑائی کو روکا جائے یا کم از کم اس کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔ 

اس لڑائی کو وہ قوتیں روک سکتی ہیں ، جنہوں نے یہ لڑائی شروع کرائی یا اس لڑائی سے جن کو فائدہ ہو رہا ہے۔ سیاست دانوں کو چور اور کرپٹ قرار دینے والے بیانیہ کے کیسٹس اور سی ڈیز بند ہونی چاہئیں، احتساب کے جمہوری عمل کا راستہ ہموار کیا جائے اور ہر کوئی سب ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ نہ لے۔ اگر فوری طور پر سیاسی انتشار ختم نہ کیا گیا تو پھر تاریخ کے ہر منطقی نتیجے کیلئے تیار رہنا پڑے گا۔

نفیس صدیقی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments