جماعت اسلامی ملک کی ایک قدیم جماعت ہے، اس جماعت کی تنظیم آزاد کشمیر سمیت ملک کے چاروں صوبوں میں موجود و فعال ہے۔ اپنے کارکنوں کو متحرک رکھنے اور عوام تک اپنا نام و کام پہنچانے میں اسے ملکہ حاصل ہے۔ اسے جہاں بین الااقوامی ایشوز اُٹھانے میں مہارت حاصل ہے وہاں یہ ملکی و عوامی مسائل جن کیلئے جدوجہد دیگرتمام جماعتوں کیلئے بےمعنی ہے، ہر وقت سرگرم رہتی ہے، راقم کے نزدیک جماعت اسلامی کو دیگر مذہبی جماعتوں پر اس لئے بھی فوقیت حاصل ہے کہ یہ جماعت دیگر مذہبی جماعتوں کی طرح سائنس و ٹیکنالوجی کو کفر قرار نہیں دیتی، اگرچہ جدید تعلیم کو شجرممنوعہ قراردینے والی جماعتیں پوچھے جانے پر اس سے انکار کرتی ہیں، لیکن عملی طور پر عالم یہ ہے کہ ان کے مکتب و مدرسوں میں جدید تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں، د یگر مذہبی جماعتوں کے مقابل اپنے اس امتیازی وصف کی وجہ سے جماعت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہر شعبے کے ماہرین موجود ہیں ۔
جماعت اسلامی کا قیام 1941ء میں سید مودودیؒ کے اُن دعوتی مضامین کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا، جن کی اشاعت 1938 اور 1939 میں ان کے ماہنامے ترجمان القرآن میں ہوئی تھی۔ ان مضامین میں جماعت اسلامی کے قیام کے اغراض و مقاصد یعنی نصب العین کا اجمال ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار 1951 میں کراچی کے اجتماع میں جماعت کے لائحہ عمل کو امیر جماعت اسلامی سید مولانا مودودیؒ نے ایک تقریر کے ذریعے واضح کیا، یہ ایک پمفلٹ کی صورت میں ’مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل کا لائحہ عمل‘ کے نام سے موجود ہے۔ اُنہوں نے اسی تقریر میں جماعت کے مقصد و نصب العین کے چاربنیادی نکات بتائے۔ تطہیر و تعمیر افکار، صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت، اصلاح کی سعی (اصلاح معاشرہ)، نظام حکومت کی اصلاح۔ اس کے بعد 1956 میں جماعت اسلامی کے ایک اہل رائے طبقے کی یہ تجویز سامنے آئی کہ ہمیں اپنی قوتیں سیاسی میدان میں جھونکنے کی بجائے عام معاشرے کی اصلاح، دعوت و تبلیغ اور اشاعت دین کے کام میں ہمہ تن مصروف ہو جانا چاہیے۔
اس طرح جیسے جیسے معاشرے کی اصلاح ہوتی جائے گی، سیاسی حالات خود بخود تبدیل ہوتے جائیں گے اور عملی میدان میں خاطر خواہ پیش رفت ہوتی جائے گی۔ اس اختلاف رائے کا جائزہ لینے اور جماعت کے آئندہ کے لائحہ عمل اور جماعت کی پالیسی بنانے کے لئے شوریٰ کی ایک ’’جائزہ کمیٹی‘‘ بنا دی گئی، بہرحال 17 تا 21 فروری 1957 کو ماچھی گوٹھ میں اجلاس کے دوران دو مخالف سوچ کے حامل زعما آمنے سامنے تھے، مولانا مودودی اوران کے ہم خیال اصحاب نے انتخابی عمل میں حصہ لینے پر زور دیا اور ڈاکٹر اسرار احمد اور مولانا امین اصلاحی صاحب نے اصلاحِ معاشرہ کیلئے کام پر اصرار کیا، ارکان جماعت نے بہرحال مولانا مودودی کی رائے پر صاد کیا، یوں انتخابی سیاست جماعت اسلامی کی مستقل حکمتِ عملی قرار پا گئی۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور مولانا امین اصلاحی صاحب اور ان کے ہمنوا جماعت سے علیحدہ ہو گئے جن میں بڑی تعداد واپس آگئی تاہم جماعت سے علیحدگی کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنے آپ کو مکمل طور پر علمی اور فکری سرگرمیوں تک محدود کر لیا جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد نے علمی اور فکری سرگرمیوں کے علاوہ عملی جدوجہد بھی جاری رکھی۔
آج ہم سے زیادہ جماعت ہی بہتر جانتی ہے کہ موجودہ دور میں معاشرے کو اصلاح کی زیادہ ضرورت ہے یا اسمبلی کی اُن نشستوں کی، جو جماعت حاصل کر پاتی ہے کیونکہ ماسوائے اُن انتخابات میں جن میں بڑی جماعتوں کو بہ وجودہ انتخابات سے دور رکھا گیا ہو، یا بڑی جماعتوں نے حصہ نہ لیا ہو اس جماعت کو کبھی قابلِ رشک کامیابی نہیں ملی۔ موضوع کراچی کے مسائل کے حوالے سے جماعت اسلامی کا کردار و جدوجہد تھا، اور بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہم ان سطورمیں اکثر یہ بین کرتے رہتے ہیں کہ مہنگائی کی عفریت، بے روزگاری کی سفاکی، بیماری کی بے رحمی سمیت اُن ان گنت عوامی مسائل پر وہ سیاسی ومذہبی جماعتیں ایک قدم حرکت نہیں کر پاتیں جن کا براہ راست تعلق نہ صرف یہ کہ عوام سے ہے بلکہ ان کے اُن غریب سیاسی کارکنوں سے بھی ہے جن کی وجہ سے ان کا کاروبارِ سیاست رواں دواں ہے۔
جو سیاسی ومذہبی رہنما آئے روز اپنے کارکنوں بلکہ مکتب و مدرسے کے بچوں تک کو سڑکوں پر گھنٹوں کھڑا رکھتے ہیں اور ہفتہ وار بنیاد پر اپنے جلسوں، لانگ مارچوں اور دھرنوں کیلئے کارکنوں کو برسرپیکار رکھتے ہیں وہ متذکرہ مسائل جن سے ان کے یہی جان نثار بھی دیگر لوگوں کی متاثر ہیں، کے حل کیلئے کوئی دھرنا، لانگ مارچ یاجلسہ نہیں کرتے، ایسے ذات و جماعت پرور ماحول میں جماعتِ اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جوعوامی مسائل کے حل کی جدوجہد میں ممتاز ہے۔ان دنوں جماعت اسلامی حقوق کراچی مہم چلا رہی ہے، جس کے تحت مردم شماری ، بلدیاتی انتخابات کے انعقاد، پانی کی قلت، بجلی کی بندش کیخلاف بڑی شاہرائوں پر ریلیوں سمیت ان مسائل سے متعلق مرکزی دفاتر پر دھرنے بھی شامل ہیں۔ یہ جماعت اسلامی ہی ہے جو مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہے، نظریاتی و فکری اختلاف کے باوجود میرے نزدیک صرف جماعت اسلامی مہنگائی سمیت عوامی مسائل اُٹھانے کی وجہ سے یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ ملکی عوام بالخصوص غریبوں کی حقیقی ترجمان ہے۔
0 Comments