All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

چین نے کورونا کو کیسے پسپا کیا؟

حرف و دانش حیرت زدہ ہیں۔ سائنس ٹیکنالوجی نے انگلیاں دانتوں میں دبا رکھی ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی والے ملک اور جہاں کووڈ 19 کی عالمگیر وبا نے پہلا وار کیا۔ وہیں اس وبا کو صرف تین ماہ میں کیسے پسپا کر دیا گیا۔ امریکہ انڈیا جیسے ممالک اگر اس ہلاکت خیز وبا کے مقابلے میں یہی کامیابی حاصل کرتے تو ڈھول بجا رہے ہوتے۔ چین نے اس پر کسی تکبر اور تفاخر کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ امریکہ میں اب تک پانچ لاکھ ستاسی ہزار شہری اسی وبا سے ہلاک ہو چکے میں۔ یہ وہی امریکہ ہے جو کسی ملک میں اپنے ایک شہری کی ہلاکت پر میزائلوں کی بارش کر دیتا ہے۔ انڈیا جو اس علاقے کی سپر طاقت بننا چاہتا ہے جو امریکہ اور یورپ کو چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی پیشکش کرتا ہے ۔ وہاں دو لاکھ اکیانوے ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ چین میں صرف 4636 اموات ہوئیں۔ 31 دسمبر 2019 کو ووہان میں یہ وبا پھوٹی۔ چین نے اپنی جامع حکمت عملی ۔ تیز رفتار اقدامات سے مارچ 2020 تک وبا کو اپنے شکنجے میں کس لیا تھا۔ نئے متاثرین آنا بند ہو گئے تھے۔

ماضی کے گراں خواب افیمی چینیوں نے قدیم و جدید کے امتزاج سے کورونا کی یلغار روکی۔ قدیم ترین طریقہ سختی۔ ڈسپلن اور جدید ترین طریقہ ٹیکنالوجی۔ نام نہاد انسانی حقوق۔ پارلیمنٹ۔ جمہوریت کے دُم چھلوں پر انسانی جان کی بقا کو اہمیت دی۔ صرف اور صرف انسان کو بچایا۔ چین کی 96 فیصد سے زیادہ شرح خواندگی رکھنے والی قوم نے اپنی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہیں بھی اپنی ۔ اپنے پیاروں کی جان ۔ آزادیٔ اظہار۔ اور آزادیٔ اجتماع سے زیادہ عزیز تھی۔ عین اس وقت جب یورپ کی جمہوریتوں میں انسان بڑی تعداد میں دم توڑ رہے تھے۔ صحت کے نظام ریت کی دیواریں ثابت ہو رہے تھے۔ اس وقت چین نے ایک ذمہ دار جدید سوچ رکھنے والے معاشرے کا مظاہرہ کیا۔ چین 2003 میں سارس severe acute respiratory syndrome سانس لینے میں شدید مشکل حالت کی وبا کا سامنا کرتے ہوئے اپنی سات سو سے زیادہ قیمتی جانوں کا نقصان برداشت کر چکا تھا۔ اس لیے اب وہ کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھا۔ ووہان میں پہلی متاثرہ مریض 57 سالہ جھینگا فروش خاتون وی گوئیکسیان کے کورونا پوزیٹو آنے کے بعد ہی پوری چینی حکومت حرکت میں آگئی۔ 

سارس سے سیکھے ہوئے اسباق کو فوری نافذ کر دیا گیا۔ اس نئی بیماری کی مکمل تشخیص اور تحقیق سے پہلے ہی۔ مریضوں کو قرنطینہ کی اور عام لوگوں میں سماجی فاصلے کی پابندی کروائی گئی۔ سب سے سخت اقدام اس پابندی پر عملدرآمد تھا۔ 1۔ پہلا قدم سرکاری محکموں میں ہنگامی حالت کا اعلان۔ 2۔ متاثرہ آبادیوں اور شہروں میں مکمل لاک ڈائون۔ 3۔ ملک گیر میڈیکل تحریک۔ 4۔ میڈیکل برادری اور دوا ساز کمپنیوں کی مالی اعانت اور ان کے لیے ترجیحی پالیسیاں۔ 5۔ احتیاطی تدابیر۔ اطلاعات کو ہر چینی تک پہنچانے کی جامع پالیسی۔ ان پانچوں بنیادی اقدامات پر عملدرآمد کا ہر لمحہ جائزہ لینے کے لیے ہر شہر ہر محلے میں ٹاسک فورسز ۔ بلدیاتی اداروں سے بھرپور کام لیا گیا۔ آن لائن اشیا فراہم کرنے والے ہرکاروں کو حکومت نے اپنی رضا کار فورس میں شامل کر لیا۔ ووہان میں ہر بلڈنگ۔ ہر سرکاری دفتر کے باہر ایمرجنسی ٹینٹ۔ ٹیکنالوجی کا ہر قدم استعمال کسی شہری میں اگر کوئی علامت پائی گئی تو اسے گھر یا دفتر نہیں جانے دیا گیا۔ اسپتال لے جا کر اس کے ٹیسٹ کیے گئے۔ ووہان میں پورے ملک سے ماہرین اور معالجین کو بلا کر تحقیق۔ تشخیص اور علاج پر مامور کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی دوا ساز کمپنیوں کو ویکسین کے لیے تحقیق اور تیاری پر لگا دیا گیا۔ 

بیان بازی۔ جوابی بیان بازی نہیں تھی۔ سرخ فیتہ نہیں تھا۔ ریڈیو پاکستان کے زبیر بشیر اس وقت ریڈیو بیجنگ سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق چین کی 87 سالہ نائب وزیر اعظم کو ووہان میں ان سب اقدامات کا انچارج بنا کر سب اختیارات دے دیے گئے۔ کسی بھی ایکشن کے لیے دو گھنٹے سے زیادہ کا وقت نہیں تھا۔ اس میں تاخیر قابلِ گردن زدنی تھی۔ ضرورت کی ہر چیز دوسرے صوبوں سے چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے پہنچائی جارہی تھی۔ ووہان کو چینی حکومت نے ایک تجربہ گاہ سمجھا۔ تاکہ دوسرے صوبوں تک یہ وبا نہ پہنچے۔ اگر ضرورت پڑتی تو طے شدہ ہدایات میں فوری طور پر تبدیلی لائی جاسکتی تھی۔ پورے ملک میں رضا کار و کمیونسٹ پارٹی کے ارکان بھی الرٹ کر دیے گئے۔ بیماریوں سے مزاحمت پر تحقیق کرنے والے اداروں کے لئے چین کے شعبۂ ریسرچ فنڈنگ اور وسائل نے فوری طور پر فنڈز بڑھا دیے۔ بینکوں کو بھی اس سلسلے میں فوری ہدایات دے دی گئیں۔ 

میڈیا کو بھی اسی روشنی میں اپنی نشریات کرنے کی ہدایت دی گئی۔ درآمد برآمد۔ صنعت و تجارت سارے محکمے اب نئی ہنگامی حالت کے مطابق کام کر رہے تھے۔ ہدف تھا۔ کووڈ 19کو روکنا۔ ٹرانسپورٹ پالیسی ۔ زمینی۔ فضائی۔ بحری بھی سب اس مطابقت میں ترتیب دی گئی۔ مارچ 2020ء میں جب نئے متاثرین کی خبریں آنا بند ہوگئیں تو لاک ڈائون میں نرمی کا سوچا گیا۔ پہلے مرحلے میں ہی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں کھولی گئی۔ پہلے اپنی گاڑیاں خود چلانے والوں کو باہر نکلنے کی اجازت دی گئی۔ ٹرانسپورٹ کے منظر نامے پھر کسی وقت تفصیل سے لکھیں گے۔ کیونکہ یہی پالیسی دوسرے صوبوں تک وبا کے روکنے میں نتیجہ خیز رہی ہے۔ اس لیے اس کا مطالعہ الگ سے ہونا چاہئے۔ اب ہماری رگوں میں چین کی جو ویکسین دوڑ رہی ہے اس کے لیے اسی وقت حکم دے دیا گیا تھا ۔ اس کی تیاری جولائی 2020 میں شروع ہو گئی۔ سب اپنا اپنا کام کرتے تھے۔ 

ہمارے وزیروں کی طرح ٹاک شوز میں آنے یا ٹوئٹ کرنے کے شوقین نہیں تھے۔ ویکسین کے لیے ساری چینی قوم رضا مند ہے۔ اپنی رجسٹریشن کروا چکی ہے۔ 20 کروڑ سے زیادہ چینی ویکسین کی خوراکیں لے چکے ہیں۔ معیشت کے ذمہ داروں نے اپنی نظر معیشت پر رکھی۔ 2020 میں وبا کی وجہ سے جی ڈی پی کی شرح 2.3 فی صد پر چلی گئی تھی۔ اب وہ واپس آرہی ہے۔ جلد ہی 8.4 فی صد کا ہدف حاصل کرنے کا امکان ہے۔ صحت عامہ کے لیے بجٹ 2019 میں 6.64 فی صد تھا۔ 2020 میں زوال کے باوجود 6.43 فیصد رکھا گیا۔ سخت ڈسپلن کا قدیم نسخہ ہی سب سے زیادہ کامیاب رہا۔ سماجی فاصلوں اور تنہائی کی صورت میں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لیے آن لائن ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھایا گیا۔ چین کے لوگ 70 فیصد سے زیادہ آن لائن چیزیں منگواتے ہیں۔ اسپتالوں میں انسانوں کی جگہ روبوٹ استعمال ہو رہے ہیں۔ Cloud mind کمپنی روبوٹ تیار کررہی ہے۔ 100 سے زیادہ روبوٹ اس خدمت میں مصروف ہیں۔ Little Peanut۔ ننھی مونگ پھلی نامی روبوٹ مریضوں کو کھانا دیتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی اس طلسمی دنیا کے بارے میں بھی کہانیاں پھر کبھی سہی۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments