All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

وبا سے بچ جانے والوں کے پیغامات

برادر عزیز ۔ مجھے احساس ہے کہ آپ ابّا اور امّی کے انتقال پر کیوں نہیں آسکے۔ اس ظالم کورونا نے پوری دُنیا کو مفلوج کر رکھا ہے۔ ﷲ تعالیٰ کی رضا یہی تھی۔ یہ سب المیے اسی طرح رُونما ہونے تھے۔ آپ احتیاط کریں۔ بھابھی اور بچوں کا بھی پورا خیال رکھیں۔ انڈیا کی طرح اب کینیڈا میں بھی برا حال ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارے دنیا بھر میں مقبول ناول نگار ابّو اس طرح ہمیں اچانک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ان کے نامکمل ناول مجھے خون کے آنسو رُلارہے ہیں۔ ان کی جدائی مجھ اکیلے کے لیے تو بہت تکلیف دہ ہے۔ مجھے تو ابّو اور امّی کی طرح اپنے محسوسات قلمبند کرنا بھی نہیں آتے۔ یہ غم میرا مقدر تھا۔ دو روز بعد ہماری پیاری امّی بھی ابّو کے پاس چلی گئیں۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ مجھ اکیلے کا کیا ہو گا۔ مجھے کون سنبھالے گا۔ پورا گھر بھائیں بھائیں کر رہا ہے۔ ابّو کے دوست احباب دو تین روز آتے رہے۔ اب تو دروازے پر دستک ہی نہیں ہوتی۔ 

رشتے دار تو پہلے بھی کب پوچھتے تھے۔ سب کہتے تھے تمہارے ابّو بہت بڑے آدمی ہیں۔ ہماری کیا ضرورت ہے۔ ہمارے ابو یقیناً بڑے آدمی تھے۔ ان کے ناولوں کی دھوم تو پوری دنیا میں مچی ہوئی ہے۔ اخبارات میں ان کے بارے میں بہت اچھے مضامین آئے۔ بھائی۔ میں بہت اُداس ہوں۔ دل گرفتہ ہوں۔ بہت سے مراحل طے کرنے ہیں۔ بینک اکائونٹس کی تصدیق ۔ منتقلی ۔ مکان کے معاملات۔ کل میں نے ابّو کی ڈائری اچانک نکالی۔ ان کے ابتدائی حالات پڑھے۔ اب میں بہت پُر عزم ہوں۔ مجھے پوری امید ہے۔ اعتماد ہے۔ ﷲ تعالیٰ سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ میرے کالج کے دوست میرا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ آپ اپنا خیال رکھیں۔ وبا کا زور ٹوٹے تو پھر ہم مشورہ کر لیں گے کہ آپ اِدھر آئیں یا میں آپ کی طرف آئوں گا۔ آپ نے پوچھا ہے تو بتا رہا ہوں ورنہ میں نے یہاں کسی سے ذکر تک نہیں کیا۔ ابّو کے آخری لمحات بہت ہی کربناک تھے۔ پھیپھڑوں نے کام چھوڑ دیا تھا۔ پھر گردے ناکام ہونے لگے۔ مجھ سے تو یہ حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ ﷲ کسی کو کورونا میں مبتلا نہ کرے۔ آپ کا بھائی احسن۔


میرے دوست۔ آج اس قابل ہوا ہوں کہ موبائل فون پکڑ سکوں۔ سب سے پہلے تمہیں ہی واٹس ایپ کر رہا ہوں۔ تمہارے فون چھوٹی ہوئی کالوں میں ہیں۔ کیسے فون سن سکتا تھا۔ میرے دونوں بیٹے۔ میرے بڑھاپے کے سہارے۔ میرے بازوئوں میں دم توڑ گئے۔ صرف 24 گھنٹوں کے وقفے میں۔ جانا تو مجھے ان کے کندھوں پر تھا لیکن مجھے انہیں کندھا دینا پڑا۔ وہ مجھے احتیاط کی تلقین کرتے رہے۔ میں بھی انہیں بہت سمجھاتا تھا لیکن ایک کے دفتر والے مجبور کرتے رہے اور دوسرے کے بازار والے۔ دنیا بھر میں واویلا مچا ہوا تھا لیکن ہمارے شہر میں تو گویا فکر ہی نہیں تھی۔ چھوٹے والا تو پھر بھی ماسک کبھی کبھی اوڑھ لیتا تھا۔ بڑے والا تو مان کے ہی نہیں دیتا تھا۔ مجھ سے تو ان کی ماں کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ جس نے انہیں 9 ماہ تک پیٹ میں پالا۔ پھر گود میں کھلایا۔ کتنی منتوں مرادوں سے تو آئے تھے۔ مت پوچھو کہ ان کے آخری دن کیسے گزرے وہ لمحے میری تو آنکھوں میں اٹکے ہوئے ہیں۔ بس اور نہیں لکھا جاتا۔

ہیلو۔ السلام علیکم۔ بھائی معاف کرنا میں پیغام دے سکی نہ بات کر سکی۔ ان دو ہفتوں میں تو قیامتیں گزر گئیں۔ ہم تو سب ہی بہت ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔ کورونا کے حملے جاری تھے۔ میں تو روزانہ دفتر جارہی تھی۔ پھر یہ پابندی لگی کہ ایک دن دفتر دو روز گھر سے کام۔ گھر سے کام والے دنوں میں ہی بیماری نے گھر کا راستہ دیکھ لیا۔ ابّو تو پہلے ہی بستر سے لگے ہوئے تھے۔ پہلے سے ہی انہیں دمہ رہتا تھا۔ یہ کورونا کی لہر نہ جانے کہاں سے آئی۔ ان کو اپنے ساتھ لے گئی۔ ان کے آخری لمحے تو دیکھے نہیں جاتے تھے۔ اسپتال والے بھی کیا کرتے۔ بل بناتے رہے۔ جو جمع پونجی تھی لگ گئی۔ قسمت کو نہ جانے کیا منظور تھا۔ امی جو ابو کی دیکھ بھال میں مصروف تھیں وہ بھی کھانسنے لگیں۔ ابو کے بعد تین روز ہی سانس لے سکیں۔ بھائی دنیا اجڑ گئی ہے۔ بڑی مشکل سے میں یہ ریکارڈ کررہی ہوں۔ میرے میاں نے بہت خیال کیا۔ سارے بل اس نے ہی دیے ہیں۔ ﷲ کا شکر ہے کہ وہ سخت احتیاط کرتا رہا۔ محفوظ رہا۔ بھائی اپنا خیال رکھنا۔ ایسی بیماری تو پہلے دیکھی نہ سنی۔
۔۔۔۔
انکم ٹیکس آفیسر۔ ابھی تو خدا کا واسطہ۔ ان دنوں تو تنگ نہ کرو۔ کاروبار بالکل تباہ ہوگیا ہے۔ اپنے ورکرز جو برسوں سے ساتھ کام کررہے تھے۔ کمپنی کا اثاثہ تھے۔ ان سب سے معذرت کرنا پڑی ہے۔ سالوں کی محنت اکارت گئی ہے۔ کچھ خبر نہیں آگے کیا ہو گا۔
۔۔۔۔۔
میں بوڑھی اکیلی رہ گئی ہوں۔ یہ چھوٹے چھوٹے پوتا پوتی پالنے کے لیے۔ بیٹا بہو دونوں ہی کورونا کی نذر ہو گئے۔ کیا سوچوں ۔ کیا کروں۔ میں کتنے دن جیوں گی۔ انہیں کون پالے گا۔ کون خیال رکھے گا۔
۔۔۔۔۔
میں ایک ہندو ہوں۔ چھوٹی ذات کا۔ پولیس میں ہوں۔ میرا قصبہ بلا کی زد میں ہے۔ میں تو اس مسجد کے پاس سے بھی نہیں گزرتا تھا۔ آر ایس ایس سے ڈرتا تھا مگر اب میں مسجد کی دہلیز پر کھڑا ہوں۔ امام صاحب سے اپیل کر رہا ہوں۔ اپنے ﷲ سے دعا مانگیں۔ میرے شہر کو بچائے۔ لوگ سسکیاں لے لے کر تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔
ہیلو: یار یہاں تو بہت برا حال ہے۔ وہاں چین میں کیا ہورہا ہے۔
یہاں تو بہت سختی ہے۔ الحمد للہ۔ وبا کو روکا ہوا ہے۔
دکاندار شور نہیں مچا رہے۔
یہاں جمہوریت شمہوریت نہیں ہے۔ لوگوں کی زندگی کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ہم بھی کمروں میں بند ہیں۔ زندہ تو ہیں۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments