All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

احتساب کا ادارہ خود کسی کو جواب دہ نہیں

براڈ شیٹ کیس نے نیب کی جس کارگزاری کو بے نقاب کیا ، وہ کل خرابی کاعشرِ عشیر بھی نہیں۔ مئی 2000 میں اُس وقت کے نیب پراسکیورٹر جنرل فاروق آدم نے سپریم کورٹ کو صدیق الفاروق کی سات ماہ پر محیط غیر قانونی حراست کے بارے میں بتایا کہ نیب دیگر اہم کاموں میں اتنا مصروف رہا کہ اُنہیں کہیں ’’رکھ‘‘ کر بھول گیا۔ نیب نے اعتراف کیا کہ صدیق الفاروق کسی ایف آئی آر کے اندراج کے بغیر ہی سات ماہ تک نیب کی حراست میں رہے ہیں۔ تاہم اُس وقت بھی نیب کے خلاف کسی نے کوئی کارروائی نہ کی۔ براڈ شیٹ کیسز کے حوالے سے حالیہ رپورٹ کے مطابق نیب کی ناکامی کی وجہ سے ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس سے نہ صرف اس ادارے کی نااہلی اور نالائقی بے نقاب ہوئی بلکہ ایک اسکینڈل بھی سامنے آیا جس کے مطابق 2008 میں ایک غلط شخص کو 1.5 ملین ڈالر دیے گئے۔ مقامِ حیرت ہے کہ اس پر انکوائری کا حکم دیا گیا اور نہ ہی کسی کی گرفتاری عمل میں آئی کہ کس نے 2008 میں نیب کو کسی شخص کو اتنی بھاری رقم دینے کا اختیار دیا تھا کہ وہ اس کے اور براڈ شیٹ ایل ایل سی کے درمیان بروکر کا کردار ادا کرے۔

یہ معلوم ہونے کے بعد فرم نے مقدمہ کر دیا جس کے نتیجے میں 28.7 ملین ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ مئی 2008 میں پاکستان نے جیری جیمز کے ساتھ معاہدہ کیا۔جیری جیمز بھی کبھی براڈ شیٹ کا حصہ تھے۔ مان جزیرے (آئی او ایم) میں قائم کردہ فرم براڈ شیٹ کے اثاثے مارچ 2005 میں فروخت کر دیے گئے۔ اس دوران نیب نے 2003 میں اس کمپنی کے ساتھ معاہدہ منسوخ کر دیا۔ کلوریڈا امریکا میں مقیم یہ کاروباری شخص، جیری جیمز بنیادی طورپر براڈ شیٹ کا حصہ تھا لیکن اس کی بندش کے بعد وہ ڈیل کرنے کا مجاز نہیں تھا۔ اس نے کلوریڈا میں اسی نام سے ایک اور کمپنی بنائی، جس کا نام براڈ شیٹ ایل ایل سی تھا۔ بیس مئی 2008 میں اُس نے 1.5 ملین ڈالر کا ایک جعلی معاہدہ کرتے ہوئے ظاہر کیا کہ وہ نیب پر براڈ شیٹ کی جانب سے عائد کئے گئے تمام دعوے ختم کرا دے گا۔ معاہدہ اور جیمز کا حلف نامہ جھوٹ اور ابہام سے بھرا ہوا تھا۔ تاہم اس سب کے باوجود آج تک کوئی شواہد دکھائی نہیں دیتے کہ اس معاملے میں نیب کے خلاف انکوائری کون کرے گا ؟

براڈ شیٹ، جسے پہلے ہی پاکستانی ٹیکس دہندگان کے 4.5 بلین روپے ادا کیے جا چکے ہیں، نے اب نیب پر 1,180,799.66 امریکی ڈالر کی اضافی رقم ادا کرنے کا دعویٰ کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یونائٹڈ نیشنل بینک کی طرف سے فنڈز کی وصولی سے پہلے نیب کے کلائنٹ پر واجب الادا اس رقم کا اضافہ ہو چکا تھا۔ کرویل اینڈ مورنگ میں براڈ شیٹ کے وکلا نے نیب کے وکلا کو لکھا ہے کہ ’’ اُن کے کلائنٹ نے پہلے باور کرایا تھا کہ وہ تمام رقم ادا کرے گا۔ برائے مہربانی اس بات کی تصدیق کیجیے کہ آپ کا کلائنٹ ہمارے کلائنٹ کو 2,100,000 امریکی ڈالر (337 ملین روپے) بلا تاخیر ادا کرے گا‘‘۔ اگر یہ کیس کسی بھی سرکاری محکمے میں ہوتا تو اب تک نیب بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے باعث اربوں روپوں کے نقصان کی پاداش میں کئی ایک گرفتاریاں کر چکا ہوتا۔ صرف براڈ شیٹ ہی نہیں، نیب نے ایک اور فرم کو خاموشی سے 2.26 ملین ڈالر ادا کیے ہیں جس کی خدمات بے نظیر بھٹو مرحومہ، اُن کے شوہر ، آصف علی زرداری اور دیگر کے اثاثہ جات کی تفصیل جاننے کے لیے حاصل کی گئیں لیکن نیب نے قبل از وقت اس کے ساتھ معاہدہ ختم کر دیا تھا۔

سنہ 2000 میں جب دو سو افراد کے اثاثہ جات کی تحقیقات کے لیے میسرز براڈ شیٹ ایل ایل سی کی خدمات حاصل کی گئیں تو میسرز انٹر نیشنل ایسٹ ریکوری کے ساتھ بھٹو خاندان کے خلاف اُن اثاثہ جات کی تحقیقات کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔ تاہم نیب نے 2003 میں ضروری طریقہ کار اپنائے بغیر دونوں فرموں کے ساتھ معاہدہ توڑ دیا۔ اس کے نتیجے میں ممکنہ قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے معاہدوں کے ذریعے تصفیہ کیا گیا۔ پاکستان کے فوجداری جسٹس سسٹم کی تاریخ کے ایک منفرد اسکینڈل کی خبر بھی سامنے آئی۔ دو مختلف ہائی پروفائل کرپشن کیسز ، ایس جی ایس، کوٹیکنا اور اے آر وائی گولڈ کے مختلف احتساب عدالتوں کے فیصلے ایک دوسرے کی ہو بہو نقل ہیں۔ اس کیس کوبھی نظر انداز کیا گیا اور کسی کا احتساب نہ ہوا۔ 2011 میں راولپنڈی احتساب عدالت کا کوٹیکنا کیس کا فیصلہ ایس جی ایس کیس کے فیصلے کی ہو بہو نقل تھا۔ وہ فیصلہ بھی راولپنڈی کی ایک اور احتساب عدالت نے سنایا تھا۔ نہ صرف دونوں فیصلوں کو ایک ہی انداز میں نمٹایا گیا بلکہ ان کے بہت سے الفاظ ، انداز بلکہ کئی ایک پیرے بھی ایک ہی تھے۔

سابق چیئرمین نیب، لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے تسلیم کیا تھا کہ جنرل مشرف نے اُنہیں بدعنوانی کے اسکینڈلز ،جن میں چینی، آئل مافیا اور حتیٰ کہ کئی بلین ڈالر حجم رکھنے والا اسٹاک ایکس چینج کا سقم بھی شامل تھا، کو بند کرنے کی ہدایت کی تھی۔ سابق چیئرمین کا اعتراف ظاہرکرتا تھا کہ کس طرح یکے بعد دیگرے مختلف حکمرانوں نے نیب قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے اس ادارے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران کئی ملزموں نے سختی یا میڈیا میں بدعنوانی کے الزامات کی بھرمار کی وجہ سے یا تو خود کشی کر لی یا وہ ادارے کی تحویل میں ہی فوت ہو گئے۔ اگرچہ نیب کے طریقہ کار اورفعالیت کو بہت سے حلقے ’’بے رحم ‘‘قرار دیتے ہیں لیکن اس کا سلسلہ بلاروک ٹوک جاری ہے۔ اس کی اپنی جانچ کا کوئی نظام موجود نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو ادارہ دوسروں کے احتساب کے لیے قائم کیا گیا تھا، اس کا کوئی احتساب نہیں کر سکتا۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments