عظیم پاکستانیو 10 جون کو میں نے پہلا خط لکھا تھا جس میں، میں نے آپ کو اپنے سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ میں آپ سے زیادہ عرصے دور نہیں رہ سکتا۔ آپ کو کچھ احتیاطی تدابیر بھی بتادی تھیں۔ مگر آپ کی میزبانی کے چرچے دنیا بھر میں ہیں۔ مجھے پورا یقین تھا کہ آپ مجھے جانے نہیں دیں گے، اب تو میرے چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور مجھے خاصے لوگوں کی طرف سے دعوت ملی ہے۔ بھلا ہو حکومت اور اپوزیشن کا، ایسا لگتا ہے مقابلہ ہو رہا ہے کہ کون زیادہ تیزی سے میری شہر شہر جانے میں مدد کرتا ہے۔ سچ پوچھیں اس وقت تو حزبِ اختلاف آگے نظر آرہی ہے۔ بہرحال میں نے بھی طے کیا ہے کہ پاکستان میں آنے کی اپنی پہلی سالگرہ 26؍ فروری کو یہیں منائوں۔ اب دیکھیں ایسا نہ ہو کہ آپ زیادہ احتیاط کرنی شروع کر دیں اور اپنے قومی مزاج کے خلاف صحت کو اہمیت دینے لگیں۔
دوستو، 26؍ فروری کے بعد کا پاکستان بڑا مختلف ہے۔ جس طرح 9/11 نے دنیا تبدیل کر دی، اسی طرح 26/2 نے اس ملک کو بدل دیا۔ شکر کریں اب بھی آپ کئی ممالک سے بہت پیچھے ہیں ’’میری وجہ‘‘ سے۔ مگر مجھے لگ رہا ہے کہ آپ کوشش ضرور کر رہے ہیں آگے آنے کی جس کی ایک وجہ میرے یہ بتانے پر بھی کہ آپ مجھ سے کس طرح بچ سکتے ہیں، نہ آپ صحیح طرح ماسک پہنتے ہیں اور نہ سماجی فاصلہ رکھتے ہیں، گلوز کی عادت تو ڈالی ہی نہیں۔ غرض یہ کہ وہ کام جس سے مجھے آپ کے قریب آنے میں دشواری ہو، آپ نے نہیں کئے۔ شاید اسی وجہ سے یہ نئی لہر میرے لئے سودمند ثابت ہو رہی ہے، اس کے لئے عوام کا اور خاص طور پر عوامی رہنمائوں کا شکریہ۔ ساتھ میں ان خاندانوں سے خصوصی ہمدردی جن کو میری وجہ سے جانی نقصانات ہوئے۔
میں تو چاہتا ہوں کہ دنیا جلد سے جلد میرا توڑ نکالے کیونکہ اب میں بھی تھک گیا ہوں۔ چھ کروڑ لوگ مجھ سے اب تک متاثر ہو چکے ہیں۔ کئی لاکھ ہلاکتیں ہو گئی ہیں۔ میں اب بھی میکسیکو فلو کی وبا سے پیچھے ہوں جس سے دو کروڑ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ سنا ہے چین، روس، امریکہ میں ویکسین کی تیاری آخری مراحل میں ہے مگر یہ طے کرنے میں بھی ابھی چھ ماہ سے سال لگ سکتا ہے۔ آپ کے ملک میں بھی اس طرح کی خبریں آرہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان بھی تیار بیٹھے ہیں کہ جیسے ہی باہر کے کسی ملک میں قابل اعتبار ویکسین تیار ہو، درآمد کر لی جائے۔ مجھے تو آپ کے ملک میں پہلے چند ماہ میں خاصی مایوسی ہوئی تھی کہ مجھے لوگوں کا وہ رسپانس نہیں ملا جس کی توقع تھی۔ جس کے جسم میں داخل ہونے کی کوشش کرتا وہاں پہلے ہی اتنے وائرس ہوتے کہ میری اپنی قوت جواب دے جاتی پھر میں دوسرے کو یہ وبا کیسے لگاتا؟ اپنے پڑوسی ملک کو ہی دیکھ لیں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہو چکے ہے۔
ہاں میں کہہ رہا تھا کہ میرا واپسی کا ارادہ تھا۔ صدر پاکستان اور کچھ وفاقی وزیروں نے تو اعلان تک کر دیا تھا کہ انہوں نے میرے خلاف جنگ جیت لی ہے مگر وہ دوسری لہر سے ناواقف تھے۔ پھر بھلا ہو حزبِ اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا کہ انہوں نے حکومت مخالف تحریک کا اعلان کر دیا۔ جلسے شاندار تھے، کم از کم مجھے تو مزا آیا کیونکہ ماشاء اللہ سے کوئی بھی SOPs پر عمل نہیں کر رہا تھا۔ جواب میں حکومت نے بھی جلسے شروع کر دئیے۔ سرکاری فنکشن، بھرے بازار، شادیاں، کاروبار، اسکول، سماجی سرگرمیاں… بس پھر کیا تھا میں نے واپس جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ اب تو میں اسلام آباد لانگ مارچ کروا کے ہی دم لوں گا۔ خبریں تو آپ کو آرہی ہوں گی کہ اسپتالوں میں بیڈ نہیں مل رہے۔ ایک زمانے میں سینما ہالوں کے اوپر ’’ہائوس فل‘‘ کا بورڈ لگا ہوتا تھا۔ اب یہ حال اسپتالوں کا ہے۔
کچھ اسپتالوں نے تو یہاں بھی دو نمبری شروع کر دی۔ جس شخص کو ابھی میرا وائرس لگا نہیں اس کے بھی کم از کم دو ٹیسٹ تو مثبت آتے ہیں، جن کو داخل کیا جاتا ہے، ان کے بھی بل ہزاروں میں تو ہوتے ہی ہیں۔ بات ’’وینٹی لیٹر‘‘ تک پہنچ جائے تو اخراجات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ اس لئے بڑی تعداد میں لوگ گھر میں ہی اپنے آپ کو ’’قرنطینہ‘‘ کر لیتے ہیں یا غریب آدمی تو بتاتا ہی نہیں ہے، کہتا ہے میں تو پہلے ہی مرا ہوا ہوں مزید کیا مروں گا۔ میں نے اپنے پہلے خط میں احتیاط کا کہا، آپ نے سیاست شروع کر دی۔ اب کیا میں تھانوں اور جیلوں میں نہیں آسکتا جو حکومت نے کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ دوسری طرف لگتا ہے مولانا نے میرا توڑ نکال لیا ہے جنہیں میری پروا ہی نہیں ہے اور اپنے اتحادیوں کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا ہے حالانکہ میں شہباز شریف اور حمزہ کے پاس ہو کر آچکا ہوں اور اب بلاول بھٹو زرداری صاحب کا مہمان ہوں جن تک رسائی اپنے دوست جمیل سومرو کے ذریعہ حاصل ہوئی۔
ایک آخری مشورہ بھائی رانا ثناء اللّٰہ کے لئے، عوام کو اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے جلسے جلوسوں میں شرکت کی تلقین کے ساتھ کیا ہی اچھا ہو، کچھ لوگ لندن سے بھی آ جائیں۔ چلیں میاں صاحب نہیں صاحب زادے ہی عوام کے ساتھ جان و مال کے ساتھ شریک ہو جائیں اور کچھ نہیں تو اسحاق ڈار ہی ہمت کر لیں۔ رانا صاحب! بے نظیر بھٹو کو پتا تھا کہ 27؍ دسمبر کو کیا ہو سکتا ہے۔ وہ وڈیو لنک سے خطاب کر سکتی تھیں مگر جان دی تو عوام کے درمیان رہ کر۔ رہ گئی بات لوگوں کی تو ہم تو ویسے ہی ہجوم ہیں، قوم ہوتے تو کم از کم میرے خلاف یک زبان ہوتے۔ اللہ آپ کو مجھ سے محفوظ رکھے۔ اللہ حافظ۔ منجانب کورونا۔ دوستو:۔ یہ ایک تکلیف دہ تحریر ہے کیونکہ میں نے خود کورونا کو محسوس کیا ہے۔ میری اہلیہ بھی اس بیماری کا شکار ہوئیں۔ اسپتال میں بھی کئی دن رہیں۔ مگر ہم نے اس کو شکست دی جس میں ہزاروں لوگوں کی دعائیں شامل رہیں۔ ان سب کا شکریہ۔ اس بیماری نے بہت سے ڈاکٹروں اور نرسوں کی زندگیاں لے لیں کیونکہ وہ دوسروں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا چاہتے تھے۔ ہمارے کئی صحافی اس بیماری میں مبتلا ہو کر دنیا سے چلے گئے جن میں جیو اور جنگ گروپ کے قیصر محمود اور ارشد وحید چوہدری بھی شامل ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ان سب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے۔ آمین!
0 Comments