All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

جلد انصاف کی اہمیت : ارشاد حسن خان…سابق چیف جسٹس پاکستان


پاکستان کے دیوانی و فوجداری نظامِ انصاف کو بیشمار مسائل، مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ جن میں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر اور بالخصوص عرصہ سے فیصلہ طلب پڑے مقدمات کا ڈھیر اہم ترین ہیں۔ اس حوالے سے اگر ہم اپنے خطے کے یا دیگر ممالک پہ نگاہ ڈالیں تو یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف پاکستان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دیگر ممالک میں رائج نظام ہائے انصاف بھی انہی مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں۔ بہ الفاظ دیگر یہ دائمی مسئلہ ترقی پذیر معاشروں تک محدود نہیں رہا بلکہ امریکہ اور برطانیہ سمیت تقریباً سبھی اقوام کے لئے مستقلاً پریشانی اور فکر مندی کا باعث بن چُکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 17 لاکھ 70 ہزار سے زائد ہے۔ سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 37 ہزار 843 ہے۔ عدالتوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود فیصلوں کے منتظر مقدمات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اُتنے کیس فیصلہ نہیں ہوتے جتنے نئے آجاتے ہیں۔ 

ہمیں یہ سوچ کر مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے کہ یہ مسئلہ ترقی پذیر معاشروں تک محدود نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ سمیت سبھی اقوام کے لئے مستقلاً پریشانی اور فکر مندی کا باعث ہے۔ یہ مسئلہ اُن معاشروں کیلئے تو اتنا سنگین نہیں جہاں سزائے موت موقوف ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ مبینہ قاتل کی بریت کے فیصلے تک ’’قاتل‘‘ جیل میں ہی فوت ہو چُکا ہوتا ہے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ ’’قاتل‘‘ اپنی سزائے موت کے خلاف رحم کی اپیل کی منظوری سے کئی سال قبل راہی ملک عدم ہو چُکا ہوتا ہے۔ یوں بھی ہوا ہے کہ بااثر دشمنوں کے انتقام کا نشانہ بننے والے نوجوان کو کہیں بڑھاپے میں جا کر بریت نصیب ہوئی۔ انصاف کے حصول میں جائیدادیں بِک جاتی ہیں۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے کنگال اور عمر کے قیمتی سال غارت ہو جاتے ہیں جس نے صاحبِ فکر اور انسانیت کا درد رکھنے والے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔

یہ کہنا غیرضروری نہیں ہو گا کہ اس مسئلے کا حل یہ نہیں کہ سینکڑوں نئی عدالتیں بنا کر ہزاروں جج تعینات کر دیے جائیں، اول تو ملک کی معیشت اتنے بوجھ کی متحمل نہیں ہو سکتی، دوسرا جب تک معاشرے کی مجموعی سوچ نہیں بدلی جائیگی۔ اس حوالے سے جہالت کا ماتم فضول ہے۔ یہاں تو بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ معمولی جھگڑوں کو لے کر عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ جب تک لوگوں کے دلوں میں صبر، برداشت اور معاف کرنے کی اسلامی اقدار راسخ نہیں کی جائینگی مقدمہ بازی کے ناسور سے جان نہیں چھوٹے گی۔ اس ضمن میں پولیس کی روش اور کردار کو بدلنا بھی بہت ضروری ہے جو گلی میں بچوں کی لڑائی پر کسی ایک فریق کے اثر میں آکر شیر خوار بچے پر بھی دہشت گردی کی دفعات لگا کر عدالتوں کے کا م کو بڑھا دیتی ہے۔ عدالتی تاخیر کے مسئلے کا حل نہ تو جج صاحبان کی تعداد میں بڑے پیمانے پہ اضافہ ہے اور نہ ہی خصوصی عدالتوں کا قیام بلکہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر میں کمی صرف وہی جج صاحبان کر سکتے ہیں جو اس بات پہ اصرار کر سکیں کہ وکلاء پراسیکیوٹر اور فریقین سبھی مقدمہ کے فیصلہ کیلئے مقرر کی جانیوالی تاریخ کی آخری حد تک پابندی کریں۔ 

ایسی کوشش کیلئے ضروری ہے کہ جج صاحبان فکر اور لگن کے حامل ہوں۔ جج صاحبان کو ایسے وکلاء اور پراسیکیوٹروں کی جانب سے غالباً تلخی کا سامنا کرنا پڑیگا جن کے اپنی مرضی کی تاریخ سماعت مقرر کروانے کے استحقاق میں خلل پڑیگا۔ صورتِ حال خواہ جو بھی ہو، مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا سدِ باب بڑی حد تک عدالتی امور کو بہتر طور پہ چلانے کی تراکیب کے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے نہ کہ نئی عدالتوں کے قیام یا جج صاحبان کی تعداد میں اضافہ سے۔ میں اس بات پہ زور دوں گا کہ افسرانِ جلیل اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ وہ قانون اور ضابطے کی حدود کے اندر رہتے ہوئے دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلوں کی رفتار میں اضافہ کیلئے ایسی تراکیب اختیار کریں جو تاخیر میں کمی اور سابقہ جمع شدہ مقدمات کے فیصلے پہ منتج ہوں۔ تاہم یہاں میں تنبیہ کرتا چلوں کہ انصاف کی قربانی کی قیمت پر مقدمات کے فیصلوں میں تیزی لانے کو کسی صورت میں انصاف نہیں کہا جاسکتا۔ ’’انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار‘‘ اور ’’انصاف میں جلد بازی، قتل انصاف‘‘ دونوں قانونی سچائیوں میں توازن قائم کرنا ضروری ہے۔ 

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تیز رفتاری اور مستعدی عدالت کی آخری منازل نہیں ہونی چاہئیں البتہ یہ سب کچھ انصاف کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔ محرم علی بنام وفاقِ پاکستان کے مشہور مقدمہ میں اس معاملے پہ میں نے درج ذیل خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ’’مقدمات کے جمع ہونے اور تاخیر کی وجوہات کو مختلف اسباب اور عوامل سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ نظامِ انصاف آبادی میں اضافے اور اس کے نتیجہ میں بڑھنے والی مقدمہ بازی کیساتھ رفتار قائم نہیں رکھ سکا۔ مقدمہ بازی میں اضافہ کا تعلق شرح خواندگی میں اضافے اور عوام کے اندر اپنے حقوق و مفادات کے بارے میں شعور اور آگہی سے بھی ہے۔ جو کہ بلاشبہ ایک مہذب رویے اور قانون کی حکمرانی کے احترام کا مظہر ہے۔ ’’یہ سچ ہے کہ بہت ساری شکایات کا تعلق سرکاری حکام کے امتیازی اقدامات اور ان کے صوابدیدی اختیارات کے ناجائز استعمال سے ہے۔ جن سے لوگوں کے حقوق، مفادات اور آزادیوں پر زد پڑتی ہے۔ یوں متاثرہ افراد ناانصافی کے ازالے کیلئے عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں۔ 

مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کو یکے بعد دیگرے آنیوالی حکومتوں کی طرف سے ملکی نظامِ انصاف کو مضبوط و مستحکم کرنے کے بارے میں بےعملی یا بہت ہی کم عملی سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے۔ عدالتوں، خاص طور پہ ماتحت عدالتوں کے پاس موثر کارکردگی کیلئے درکار مناسب وسائل کا نہ ہونا ہے۔ بلاشبہ کئی عدالتیں انتہائی بےسرو سامانی کے حالات میں کام کر رہی ہوتی ہیں یعنی عدالتی افسران اور انتظامی عملہ کی مستقل کمی۔ کچھ شعبوں میں ججز کی تعداد کو دگنا بلکہ تگنا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیرِ التوا مقدمات کے ساتھ رفتار برقرار رکھی جا سکے۔ ناکافی عدالتی عمارتیں، جج صاحبان اور انتظامی عملہ کیلئے رہائشی سہولتوں کے فقدان کا مسئلہ بھی مذکورہ بےسرو سامانی کی کڑی ہے۔ ان عدالتوں کے پاس مناسب دفتری سازوسامان کی کمی ہے اور انہیں جدید ٹیکنالوجی تک بھی رسائی حاصل نہیں حتیٰ کہ ان کی لائبریریوں میں قانون اور فیصلوں کے متعلق انتہائی ضروری کتابیں بھی نہیں پائی جاتیں۔ میرے خیال میں ماتحت عدلیہ کی کارکردگی پر سست نگرانی بھی تاخیر کی وجوہات میں شامل ہے۔ لہٰذا میں نے متعلقہ ہائی کورٹوں کے ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کی کارکردگی کے جائزے اور جانچ پڑتال پہ زور دیا ہے جو کہ ان عدالتوں پر کنٹرول اور نگرانی پہ مامور ہیں۔

عدالتی کارروائی کا موثر بندوبست نہ ہونا، مقدمات کی نامکمل فائلیں، قانونی و عدالتی تربیت کے نظام میں نقائص، تنازعات کے متبادل حل کے نظام کا عدم استعمال، پرانے قوانین، غیرلچکدار ضابطے، سبھی خراب صورتِ حال میں اضافہ کرتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کی طرف پیش قدمی، شہری زندگی کا رجحان، نجکاری کی پالیسی اور اس کے نتیجہ میں مزدوروں کی تخفیف کا عمل، جیسے عوامل معاشرتی ڈھانچے میں مزید دراڑیں ڈالتے ہیں اور جرائم کے گراف کو اونچا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ بلاشبہ یہ فہرست بڑھتی ہی جاتی ہے۔ یہ صورتِ حال امنِ عامہ میں خرابی کا باعث بنتی ہے اور اقتصادی ترقی کے امکانات کو کم کرتی ہے۔ یہ اگر انصاف تک رسائی کو ناممکن نہ بھی بنائے تو بھی اس کو محدود ضرور کرتی ہے اور نظامِ انصاف پر عدم اعتماد کا باعث بنتی ہے۔ چیلنج کا حل : گوکہ عدالتی نظام کو درپیش مسائل اور مشکلات بہت ہی گمبھیر اور بھیانک نظر آتے ہیں، تاہم میرے خیال میں یہ ہمیں انہیں حل کرنے کا بیش بہا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ میں نے نظامِ انصاف کے سربراہ کے طور پر چیف جسٹسز کمیٹی، سپریم جوڈیشل کونسل اور پاکستان لا کمیشن جیسے اداروں کے فورم پر ایک منظم حکمت عملی کے تحت باقاعدہ بحث و مباحثہ اور غور و فکر کے بعد قابلِ عمل اور مقررہ وقت والے اقدامات تجویز کرنے کی سعی کی ہے جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔

(1) عدلیہ کے تنظیمی ڈھانچے کی ہر سطح پر مروجہ طریقہ کار کے مطابق خالی اسامیوں پر تعیناتی عمل کا آغاز کیا جانا۔ (2) مقدمات کو تیزی سے نبٹانے کو یقینی بنانے کیلئے عدالت عالیہ میں مخصوص شعبوں کیلئے خصوصی بنچز کی تشکیل۔ (3) مقدمات کو نبٹانے کے مقرر کردہ اہداف کے حصول کیلئے اوقات کار میں اضافہ۔ (4) سابقہ جمع شدہ مقدمات اور معاشرے کے کمزور طبقات بشمول بیوگان، نابالغان، بیویوں کے نان ونفقہ کے دعویٰ جات، نابالغ بچوں کی حوالگی وغیرہ کے مقدمات کے جلد فیصلہ کیلئے حکمت عملی کا مرتب کیا جانا۔ (بحوالہ فیصلہ جات چیف جسٹسز کمیٹی) (5) عدالت عالیہ اور ماتحت عدلیہ میں فیصلہ ہونے والے سابقہ جمع شدہ مقدمات اور نئے دائر ہونے والے مقدمات کے بارے میں ہفتہ وار اور ماہوار رپورٹوں کا مرتب کیا جانا۔ (6) ناکافی کارکردگی، نامناسب رویہ یا بدعنوانی وغیرہ کی بنا پر عدالتی افسران و انتظامی عملہ کے خلاف سخت انضباطی کارروائی کے ذریعے انکے اندر نظم و ضبط پیدا کرنے جیسے اقدامات۔ (7) مقدمات کے جلد فیصلے کیلئے ماتحت عدالتوں کو ہدایات کا جاری کیا جانا۔ (8) نئے بھرتی ہونے والے جج صاحبان کیلئے قبل ازسروس، جبکہ دیگر جج صاحبان کیلئے دوران سروس تربیتی کورسوں کا انعقاد۔ (9) مثالی کارکردگی دکھانے والے عدالتی افسران کیلئے تعریفی اسناد۔ (10) مقدمات کے جلد فیصلے کیلئے ماتحت عدالتوں کو ہدایات کا جاری کیاجانا وغیرہ۔

اس پروگرام کے شروع کئے جانے کے بعد نتائج بہت ہی حوصلہ افزا رہے۔ تمام عدالتوں بشمول عدالتِ عالیہ اور ماتحت عدالتوں کی کارکردگی بہتر ہوئی۔ اعداد و شمار، جن میں زیرِ التوا مقدمات، نئے دائر ہونے والے مقدمات، کل تصفیہ طلب مقدمات، اور جس حدتک زیرِ التوا مقدمات میں کمی ہوئی۔ تفصیلات کیلئے 2000 اور 2001 سپریم کورٹ آف پاکستان کی سالانہ رپورٹس ملاحظہ کی جا سکتی ہیں‘‘۔ میں نے بطور جج سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان 20 برس پہلے جو اقدامات کئے وہ آج بھی قابلِ عمل ہیں۔ جب میں اپنے اصلاحی اقدامات اور سفارشات کو موجودہ تناظر میں دیکھتا ہوں تو مجھے بہت خوشی ازحد اطمینان ہوتا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے مقدمات کو جلد نمٹانے کے لئے جو انقلابی اور دور رس نتائج کے حامل انتظامی اور عدالتی فیصلے کیے ہیں وہ میر ی تمنا کے عین مطابق ہیں۔ خصوصاً انہوں نے کراچی کے لاینحل مسائل کو حل کرنے اور اسے جنوبی ایشیا کا خوب صورت، منظم اور شہری سہولتوں سے آراستہ شہر بنانے کیلئے جو فیصلے اور اقدامات کئے ہیں وہ یقیناً نتیجہ خیز ہوں گے اگر دُنیا میں کہیں کسی بھی شہری آبادی کو منضبط زندگی کا حامل بنانے کے تقاضے درپیش ہونگے، تو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کے فیصلوں اور اقدامات سے لازماً استفادہ کرنا پڑے گا۔

 ارشاد حسن خان…سابق چیف جسٹس پاکستان

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments