All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پی آئی آے کے طیارے کا المناک حادثہ

اپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے کی خاطر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی پرواز کے ذریعے لاہور سے کراچی پہنچنے والے لگ بھگ سو ہم وطنوں کا گزشتہ روز زمین پر اترنے سے محض چند لمحوں پہلے طیارے کے حادثے کے باعث لقمہ اجل بن جانا ایسا دل دہلا دینے والا سانحہ ہے جو قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں۔ طیارہ گنجان آبادی پر گرا جس کی وجہ سے متعدد مکانات کو شدید نقصان پہنچا اور ان کے مکین بھی اس ناگہانی آفت سے بری طرح متاثر ہوئے جس کی تفصیلات ابھی پوری طرح سامنے نہیں آئیں۔ جن گھروں کے چراغ گل ہوئے ان کے لیے تو یہ دائمی دکھ ہے لیکن اس سانحے نے فی الواقع پوری قوم کے لیے عید کی خوشیاں گہنا دی ہیں۔ 

تاہم یہ بھی ایک ناقابلِ انکار امر ہے کہ دنیا میں آنے والے ہرانسان کو اپنے رب کے پاس لازماً واپس جانا ہے۔ اِنا للہ و اِنا اِلیہ راجعون کہہ کر ہم اسی حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم سب اللہ کے ہیں اور اسی کے حضور لوٹ جانے والے ہیں۔ ہر شخص کے لیے زندگی کی جتنی سانسیں مقدر کر دی گئی ہیں اُن میں ایک لمحے کا بھی اضافہ یا کمی ممکن نہیں۔ زندگی ہو تو بڑے سے بڑے حادثوں میں بھی انسان معجزاتی طور پر محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ بدقسمت طیارے کے مسافروں میں شامل بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود اور زبیر نامی نوجوان کے بچ جانے کی شکل میں ہم سب نے دیکھا۔ لہٰذا ہمیں ہر مشکل اور آزمائش کا مقابلہ صبر یعنی حوصلے کے ساتھ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ 

جن خاندانوں کی آنکھوں کے تارے اس سانحے کا ہدف بنے، اللہ تعالیٰ انہیں صبر اور استقامت عطا کرے اور اس حادثے کی وجہ سے جو مسائل و مشکلات انہیں پیش آسکتے ہیں اُن کو جلد از جلد حل فرما دے۔ تاہم یہ دیکھا جانا بہرصورت ضروری ہے کہ قومی ایئرلائن کا یہ طیارہ حادثے کا شکار کیوں ہوا ؟ جو کچھ ہوا کیا وہ سب محض اتفاقات کا نتیجہ ہے یا اس میں کہیں سسٹم کے نقائص اور ذمہ داریوں کی انجام دہی میں تساہل کا دخل بھی ہے؟ چیئرمین پی آئی اے ایئر مارشل ارشد ملک کا موقف تو یہی ہے کہ طیارے کی دیکھ بھال میں کسی کوتاہی اور پرواز سے پہلے کسی فنی خرابی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ حتمی جائزے کے عمل کے تمام تقاضے پورے کیے گئے تھے مگر حقائق بہرطور مکمل تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔ 

اپنے فرائض آخری لمحے تک پوری ذمہ داری اور بہادری سے انجام دینے والے طیارے کے شہید پائلٹ سجاد گل کی بات چیت کا جو ریکارڈ اور دیگر تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں ان کے مطابق طیارہ تکنیکی خرابی کا شکار ہوا، لینڈنگ گیئر جام ہو گیا، پہیوں کا کھلنا محال ہو گیا، دونوں انجنوں کی کارکردگی میں کمی واقع ہوئی جس کی بناء پر اسے مطلوبہ بلندی پر لے جانا ممکن نہیں رہا اور اس کے نتیجے میں طیارہ ایک چار منزلہ عمارت کی چھت پر بنی پانی کی ٹنکی سے ٹکرا کر زمیں بوس ہو گیا۔ یہ منظر ایک گھر کی چھت پر لگے کیمرے کی آنکھ نے بھی محفوظ کر لیا ہے۔ پائلٹ کے یہ الفاظ بھی ریکارڈ پر آگئے ہیں کہ مجھے تکنیکی مسئلہ درپیش ہے۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے بھی حادثے کی وجہ تکنیکی خرابی کو بتایا ہے جبکہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں لینڈنگ گیئر جام ہونے کے بعد طیارے کے انجن سے متعدد پرندوں کے ٹکرانے کا انکشاف بھی کیا گیا ہے۔ 

محض چند گھنٹے پہلے ہر لحاظ سے پرواز کے قابل قرار دیے جانے والے طیارے میں یہ تکنیکی خرابیاں کیسے پیدا ہو گئیں، اس سوال کا جواب حادثے کی تحقیقات کے لیے وزیراعظم کی قائم کردہ ماہرین کی کمیٹی کو تلاش کرنا ہے۔ طیارے کا بلیک باکس مل گیا ہے جو یقیناً اہم معلومات کا ذریعہ بنے گا۔ ایک نہایت اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ایئر پورٹ کے اتنے قریب بستیاں بسانا ہوابازی کے اصولوں کے قطعی منافی ہے جس کی بناء پر ایسے حادثات آئندہ بھی پیش آسکتے ہیں لہٰذا اس کا تدارک بھی ہونا چاہیے۔ بہرکیف تحقیقاتی کمیٹی کو رپورٹ کی تیاری میں غیر جانبداری، شفافیت اور پیشہ ورانہ تقاضوں کو آخری حد تک ملحوظ رکھتے ہوئے حقائق قوم کے سامنے لانے ہوں گے تاکہ آئندہ ایسے سانحات سے بچاؤ کا خامیوں سے پاک اہتمام کیا جا سکے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments