کورونا وائرس کے انسداد کے لیے جاری اعصاب شکن جنگ کے مضمرات واثرات کا گرداب بھی پھیل رہا ہے۔ عوام پر کورونا اور معیشت کی دو طرفہ مار پڑ رہی ہے ایک طرف سعودیہ اور روس کے درمیان تیل کی جنگ کے باعث دنیا کی معیشت مشکلات کا شکار ہے اور دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا کو شکست دینے کے لیے عالمی اسٹریٹجی اور موثر میکنزم کی تیاری کا سوال شدت سے اٹھ رہا ہے، تاہم مختلف ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے کورونا سے نمٹنے کی فالٹ فری حکمت عملی میں شدید مسائل سے دو چار ہیں۔ سندھ میں کورونا کے پھیلاؤ کا خدشہ ہے جس کے سدباب اور قرنطینہ کے لیے مناسب عمارتوں کی تلاش جاری ہے، صحت کے ضمن میں انفراسٹرکچر کے فقدان اور ترقی پذیر سمیت غریب ملکوں میں گورننس کے گرتے ہوئے معیار نے ارباب حکومت کو امتحان والجھن میں ڈال رکھا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قوم گھبرائے نہیں، قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔ حکومت اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ سندھ یا کسی جگہ ممکنہ لاک ڈاؤن کی صورت میں متاثرین کی امداد کے لیے ڈیٹا تیار رکھنا ناگزیر ہے، حقیقت یہ ہے کہ کورونا نے پورے نظام زندگی کو چیلنج کیا ہے اور دنیا اس وبال سے نکلنے اور کورونا کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی، خطیر سرمایہ کی فراہمی اور بین الااقوامیت پر مبنی اشتراک عمل اور بریک تھرو کے لیے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ خطے میں ایک ذہنی اور سفارتی تبدیلی کے امکانات اور کشمیر کے لاک ڈاؤن کی طرف بھی دنیا کی توجہ مبذول ہوئی ہے، چنانچہ کورونا کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تجویز پر سارک ممالک کی ایک اعلیٰ سطح کی ویڈیو کانفرنس منعقد کی گئی ، جس میں پاکستان نے وزیرمملکت کی سطح پر ویڈیو کانفرنس میں شرکت پر رضا مندی ظاہر کی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفرمرزا نے اس میں بطور خاص شرکت کی۔
انھوں نے کہا کہ تمام سارک ممالک میں کورونا کے تصدیق شدہ کیسز موجود ہیں، پاکستان کورونا سے نمٹنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ انھوں نے اس وباء سے نمٹنے کے لیے علاقائی سطح پر سارک کو با اختیار بنانے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے خطے میں مسافروں کی اسکریننگ کے عمل کو ادارہ جاتی بنانے کی تجویز دی۔ اس کے علاوہ تنظیم کے آبزرور ملک چین کے اقدامات سے سیکھنے پر زور دیا ہے۔ انھوں نے سارک وزرائے صحت کی جلد از جلد کانفرنس کے لیے پاکستان کی طرف سے میزبانی کی پیشکش بھی کی۔ کانفرنس میں شریک سربراہان نے وبا سے نمٹنے کے لیے مل کر چلنے پر اتفاق کیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کورونا وائرس سے گھبرانے کی نہیں، احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ متحد ہو کر اس وبائی مرض سے نمٹا جا سکتا ہے۔
انھوں نے وبا سے نمٹنے کے لیے سارک ڈیزاسٹر مینجمنٹ سینٹر اور ایمرجنسی فنڈ قائم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے اس کے لیے ایک کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا۔ ادھر کانفرنس میں سری لنکا کے صدرگوٹا بایا راجا پاکسے ، مالدیپ کے صدر ابراہیم محمد صالح ، نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی ، بھوٹانی وزیر اعظم لوٹے شیرنگ ، بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد ، افغان صدر اشرف غنی شریک ہوئے۔ دریں اثناء ترجمان دفترخارجہ نے کانفرنس کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ڈاکٹر ظفر مرزا نے پاکستان کی طرف سے اس وبا کے حوالے سے اب تک کے اقدامات اور ریسپانس سے سارک سربراہان کو آگاہ کیا ہے، دنیا آج کشمیریوں کے لاک ڈاؤن کو بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے۔
سری لنکن صدر اور وزیر اعظم بھوٹان کا کہنا تھا کہ مشترکہ کاوشوں کے ذریعے ہی کورونا وائرس سے نمٹا جا سکتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ کورونا کی آزمائش نے قوم کو ایک عملی راستے پر ڈال دیا ہے، قوم کی نظریں ارباب اختیار پر جمی ہوئی ہیں، اسے رہنمائی کی ضرورت ہے، دنیا سے جدید ترین سائنی معلومات لینی ہیں، ایک ایسی ویکسن کے انتظار میں دنیا بلک رہی ہے جو دکھی انسانیت کو اس عذاب اور اذیت سے نجات دلائے، لیکن کورونا ایک چشم کشا واقعہ بھی ہے جس نے عالم بشریت کو ایک فکری سوچ بھی دی ہے، نوع انسانی اس سوچ میں پڑ گئی ہے کہ دنیا کی دولت چند سفاک ہاتھوں میں مرتکز ہو گئی ہے۔
سرمائے کی حکمرانی ہے، ادویات کا سمندر موجزن ہے مگر کیمسٹوں کی دکانوں میں کورونا نام کے مرض کی کوئی دوائی موجود نہیں، کوئی ایسی انٹرنیشنل کانفرنس ابھی نہیں بلائی گئی جہاں دنیا کے آٹھ دس بڑے ملکوں کے ’’عظیم دماغ ‘‘ سر جوڑ کر نوبیل انعام یافتہ سائنسدانوں سے التجا کریں کہ ان کی لیبارٹریز میں کورونا کے لیے کوئی نسخہ کیمیا ہے یا نہیں؟ اگر ملکی معاملات اور عوام کو درپیش مسائل اور کاروبار کی کیفیت کا جائزہ لیا جائے توعجیب سی صورت حال سامنے آتی ہے، اداروں نے اگرچہ ہیلتھ ایڈوائرزی جاری کر دی ہے مگر اخبارات زبان حال سے تلخ حقائق بیان کر رہے ہیں کہ ٹیسٹ کے لیے نجی لیباریٹریز میں آنے والوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، سرکاری لیباریٹریز میں رش لگا ہوا ہے۔
زیادہ مریضوں کو ٹیسٹ کی سہولتیں فوری طور پر دستیاب نہیں ، ملک دشمن افواہیں پھیلا رہے ہیں ، خصوصی فیس ماسک کی مبینہ اسمگلنگ کے قصے سنائے جاتے ہیں، عام شہری سڑکوں پر گھوم پھر کر لنڈے کے کپڑے فروخت کرنے والوں سے مقامی طور پر تیارکردہ غیر معیاری اور گھٹیا ماسک خرید رہا ہے، کوئی ادارہ، پولیس اور طبی شعبہ اس بات کی تحقیق نہیں کرتا کہ کس قسم کے کپڑوں سے ماسک درزی سے تیار کروائے جا رہے ہیں، وہ کتنے ہائی جینک ہیں، پولیس اپنی صوابدید پر ہوٹلوں اور ریستورانوں پر چھاپے مارتی ہے، سینہ گزٹ چل رہا کہ کہ فلاں بیکری بند ہونے والی ہے، فلاں مارکیٹ میں رش کورونا کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
غرض یہ کہ ایک انارکی ہے، خلفشار ہے، بے یقینی کا عالم ہے، ادھر معاشی افق پر دھند چھائی ہوئی ہے، اجرتی مزدوروں پر بیروزگاری کا خطرہ منڈلا رہا ہے، ہزاروں ، لاکھوں مزدوروں کو رش اور ہجوم کے بہانے ملازمتوں سے فارغ ہونے کا ڈر لگا رہتا ہے، ملازمین کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب ان سے کہا جائے کہ کام پر نہ آئیں، گھر پر رہیں، آپ کو بلا لیا جائے گا۔ حکومت بلا تاخیر تجارت، کاروبار اور معاشی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے کی طرف توجہ دے، panic نہیں پھیلنا چاہیے۔ عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ پاکستانی معیشت پر کورونا کے منفی اثرات ہوں گے۔ پاکستان کی تمام اسٹاک مارکیٹس کو بحران اور مندی کا سامنا ہے، ان کے اشاریے سرمایہ کاری کے لیے نیک شگوں نہیں ہیں۔ کورونا کا نقصان کثیر جہتی ثابت ہو رہا ہے، کیونکہ صرف انسان نہیں کاروبار پر بھی موت کا سناٹا طاری ہے، تجارت گھٹ گئی ہے، اشیائے خورونوش کو ذخیرہ کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے، فوڈ سیکیورٹی کے خطرات کا عندیہ معاشی مبصرین دے رہے ہیں، لہذا اس طرف حکومت کو مکمل توجہ دینی چاہیے۔
عوام میں خوف وہراس ہے، انھیں تحفظ کا ریاستی اطمینان ملنا شرط ہے، معاشی نظام کورونا کی دسترس سے زیادہ دور نہیں، معاشی ماہرین کے مطابق اگر عوام کورونا کے سامنے سرینڈر کرنے پر مجبور ہو گئے تو اس کا لامحالہ ملبہ ملکی معیشت پر گر سکتا ہے۔ ایشیائی بینک نے انتباہ کیا ہے کہ پاک بھارت تجارت نہ ہونے سے خطہ شدید متاثر ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر کی ایوی ایشن انڈسٹری بحران میں مبتلا ہے، گلوبل ولیج میں کہرام برپا ہے۔ کسی دانا کا صائب مشورہ ہے کہ حکومت ساری باتیں چھوڑ دے بس عالمی اداہ صحت کی اس تلقین پر غور کرے کہ کورونا کے پیش نظر تحقیق کار مہارت دکھائیں ، ویکسین بنائیں۔ اس امر میں کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ عالمی معیشت کو ہزار ارب ڈالرکا نقصان ہو چکا ہے۔لیکن لازم ہے کہ 22 کروڑ اہل وطن خود کو کورونا کے سامنے بے بس ولاچار تو نہ سمجھیں۔ مایوسی نہ پھیلائیں، حکمراں قوم میں امید کے چراغ جلائیں، ان کی ڈھارس بندھائیں۔
0 Comments