All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان عدلیہ کے تاریخی اور احسن اقدامات

چیف جسٹس گلزار احمد قبضہ مافیا کیلئے زیرو ٹالرنس رکھتے ہیں اور ملک میں تمام مقامات سے تجاوزات ہٹانے اور خصوصاً سندھ سے پارکس ، سرکاری پلاٹوں اور دیگر مقامات سے تجاوزات سے پاک کرنے کا تہیہ کر چُکے ہیں گو کراچی شہر میں تجاوزات کے خاتمے کے حل کیلئے صوبائی اور مقامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے سندھ حکومت سے رپورٹ طلب کی ہے کہ شہر میں تجاوزات کے خاتمے کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ اُنکی دلی خواہش ہے کہ کراچی کو اسکی اصلی حالت میں لایا جائے۔ قانون میں سرے سے کسی مافیا کیلئے گنجائش نہیں جو دوسروں کی چھت ، حق یا روزی چھینتے ہیں وہ قانون کیمطابق کسی رعائت کے حق دار نہیں ۔ عدالتی احکامات پر ہر حالت میں عمل درآمد ہونا چاہیئے یہ دیکھنا حکومت کا فرض ہے کہ عمل درآمد کیسے کیا جائے۔ کسی ملک کی تہذیب کا اندازہ اس سے لگایا جاتا ہے کہ حکومت عدلیہ کا کتنا احترام کرتی ہے۔ 

عوام کی اس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہو گی کہ بعض اوقات حکومتیں عدلیہ کے احکامات کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں۔ سندھ میں پولیس نے فٹ پاتھوں ،سڑکوں، پارکوں، کالجوں اور سکولوں میں اپنے اپنے چیک پوسٹ بنا رکھے تھے ۔ جسٹس گلزار احمد کے احکامات کے تحت کافی حد تک یہ تجاوزات ہٹا دی گئی ہیں۔ پچھلے دِنوں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ نے کڈنی ہل پارک کراچی میں لاتعداد تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا۔ خو ش آئند امر ہے کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں کڈنی ہل پارک کی 62 ایکڑ اراضی کی ملکیت بحال ہو گئی۔ یہ صدقہ جاریہ ہے کراچی میونسپل کارپوریشن نے بھی کافی حد تک پارک کو بحال کر دیا وہاں شجر کاری کی مہم تیزی سے جاری ہے۔

میرے علم میں آیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کے ایم سی میٹرو پولیٹن کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمٰن بہت دلچسپی محنت اور دیانتداری سے کام کر رہے ہیں جس کیلئے وہ بجا طور پرستائش و تحسین کے مستحق ہیں۔ اُنکے مطابق اس پارک میں شہر کا آئکن بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ پارک اپنی اصل شکل برقرار رکھے گا اور اسے شہر کا ایک گلشن بنایا جائیگا ۔ جہا ں درختوں کو محفوظ بنایا جائیگا۔ اور خوبصورتی سے تراش لیا جائیگا‘ پارک کی بائونڈری وال تعمیر ہو گی پارک میں آنے والوں کے بیٹھنے کے لئے بنچ لگائے جائینگے۔ پینے کے صاف پانی اور لائٹنگ کے انتظاما ت ہونگے۔ یہ پارک تین دہائیوں تک شہریوں کیلئے ناقابلِ رسائی رہا۔ ‘‘کراچی والو یہ نایاب اور بہت قیمتی تحفہ مبارک ہو۔

قوی اُمید ہے کہ چیف جسٹس گلزار احمد کی دلچسپی سے کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں سے بھی تجاوزات کومکمل طور پر ختم کر دیا جائیگا۔ وہ جس معاملے میں ضروری سمجھیں گے آئین کے تحت سوموٹو اختیار استعمال کرینگے۔قبل ازیں ایک حکم کے ذریعے کہ کراچی میں سرکلر ریلوے کی جہاں روزانہ لاکھوں لوگ سستا سفر کرتے تھے، بحالی کیلئے چھ مہینے کی حد مقرر کی ہے سرکلر ریلوے بحال ہوتی ہے تو یہ بھی صدقہ جاریہ ہو گا۔ خدا کرے کہ حکمران چیف جسٹس کے عوام کے ساتھ اخلاق کی گہرائی کو سمجھیں۔ اسی طرح اُمید ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے کراچی شہرکو تجاوزات سے مکمل پاک رکھنے کی ذمہّ داری ادا کرینگے ۔ سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ کراچی میونسپل کارپوریشن کو مناسب فنڈز جاری کریں ۔ کیونکہ فنڈز کے بغیر اس قسم کا کوئی کام صحیح معنوں میں پایہء تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔

پاکستان کے دیوانی اور فوجداری نظامِ انصاف کو بے شمار مشکلات اور چیلنجز کا سامناہے جن میں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر اوبالخصوص ماضی میں فیصلے ہونے سے رہ جانے والے مقدمات کا ڈھیر اہم ترین ہے۔ میں نے پہلے بھی نوائے وقت میں شائع شدہ اپنے کالم میں اس بات پر زور دیا تھا کہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیرکا ازالہ وہی جج صاحب کر سکتے ہیں جو وکلاء پراسیکیوٹرز اور فریقین سبھی کو مقدمے کی سماعت کی تاریخ کی آخری حد تک پابند کرنے پرمجبور کر سکیں۔ ایسی کوشش کیلئے ضروری ہے کہ جج صاحبان اپنے فرض سے دل وجان سے لگن رکھتے ہوں ۔ جج صاحبان کو ایسے وکلاء اور پراسیکیوٹروں کی جانب سے غالباً ناموافق ردِ عمل یعنی عدم تعاون کا سامناکرنا پڑیگا جو سماعت کیلئے اپنی مرضی کی تاریخیں مقرر کرانے کی سوچ رکھتے ہوں گے۔

ان اصحاب کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ تاخیر سے ملک و قوم کو کتنا نقصان پہنچے گا۔ ’’ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا سدباب بڑی حد تک عدالتی امور کو بہتر طور پر چلانے کی تراکیب کے ذریعے سے ہی ہو سکتا ہے۔ میں اس بات پر زور دوں گا کہ کورٹ بھی اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ وہ قانون اور ضابطے کی حدود کے اندر رہتے ہوئے دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلوں کی رفتار میں اضافہ کیلئے ایسی تراکیب اختیار کریں جو تاخیر میں کمی اور سابقہ جمع شدہ مقدمات کے فیصلے پہ منتج ہوں۔ میں نے نظامِ انصاف کے سربراہ کے طور پر چیف جسٹسز کمیٹی ، سپریم جوڈیشل کونسل اور پاکستان لاء کمشن جیسے اداروں کے فورم پر ایک منظم حکمت ِ عملی کے تحت باقاعدہ بحث ومباحثہ اور غوروفکر کے بعد قابلِ عمل اور مقررہ وقت والے اقدامات تجویز کرنے کی سعی کی تھی جن کاخلاصہ درج ذیل خلاصہ ہے۔

اصلاحاتی اقدامات:
* عدلیہ کے تنظیمی ڈھانچے کی ہر سطح پر مروجہ طریقہ کار کے مطابق خالی آسامیوں پر تعیناتی کے عمل کا آغاز کیا جانا ۔ 

* مقدمات کو تیزی سے نبٹانے کو یقینی بنانے کیلئے عدالت عدلیہ میں مخصوص شعبوں کیلئے خصوصی بنچز کی تشکیل۔

*مقدمات کو نبٹانے کے مقرراہداف کے حصول کیلئے اوقات کار میں اضافہ ۔ 

*سابقہ جمع شدہ مقدمات اور معاشرے کے کمزور طبقات بشمول بیوگان ، نابالغان ، اور خاوندوں کے ہاتھوں تنگ بیویوں کے نان ونفقہ کے دعویٰ جات ، نابالغ بچوں کی حوالگی وغیرہ کے مقدمات کے جلد فیصلہ کی حکمت عملی کا مرتب کیا جانا۔

*عدالت عدلیہ اور ماتحت عدلیہ میں فیصلہ ہونے والے سابقہ جمع شدہ مقدمات اور نئے دائر ہونیوالے مقدمات کے بارے میں ہفتہ وار اور ماہوار رپورٹوں کا مرتب کیا جانا۔

*ناکافی کارکردگی، نامناسب رویہ یا بدعنوانی وغیرہ کی بنا پر عدالتی افسران و انتظامی عملہ کے خلاف سخت انضباطی کاروائی کے ذریعے انکے اندر نظم و ضبط پیدا کرنے جیسے اقدامات ۔ 

*مقدمات کے جلد فیصلہ کیلئے ماتحت عدالتوں کو ہدایات کا جاری کیا جانا۔

*نئے بھرتی ہونے والے جج صاحبان و مجسٹریٹوں کیلئے قبل از سروس ، جبکہ دیگر جج صاحبان کیلئے دوران ِ سروس تربیتی کورسوں کا انعقاد ۔ 

*عدالتی افسران کو مثالی کارکردگی پہ تعریفی اسناد کا عطا کیا جانا۔

یہاں یہ بتاتا چلوں کہ جب ان اقدامات و اصلاحات پر عمل ہوا تو نتائج بہت ہی حوصلہ افزا رہے
قومی جوڈیشل کمیٹی نے چیف جسٹس گلزاراحمد کی سر براہی میں اپنے اجلاس 29 فروری 2020ء میں ججز کی خالی اسامیاں چھ ماہ میں پُر کرنے کا عزم کیا ہے کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ قومی جوڈیشل آٹومیشن یونٹ مقدمات کی مونیٹر کیلئے تمام صوبوں کیلئے سنٹر لائز ڈیش بورڈ تیار کرے ۔ مجھے قوی امید ہے کہ اسکے اچھے نتائج نکلیں گے ۔ چیف جسٹس گلزار احمد سائلان کو فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے بہت کوشش کر رہے ہیں ہم ان کی کامیابی کیلئے دُعاگو ہیں ساتھ ہی میں وکلاء اور بار کے منتخب نمائندوں سے اپیل کرونگا کہ وہ سائلان کو فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے عدلیہ سے تعاون کریں اور خوا مخواہ سماعت کو آگے بڑھانے پر اصرار نہ کریں بلکہ پوری تیاری کر کے آئیں اور سماعت کی تاریخ پر مقدمہ لڑیں۔

حکومت کو چاہئے کہ ججوں کی تما م خالی اسامیوں کو چھ ماہ کے اندر ہر صورت پُر کرے کوئی حیلہ بہانہ نہ کریں۔ آئینِ پاکستان کے تحت تمام انتظامی اور عدالتی اداروں پر لازم ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے تعاون کریں حکومت کو عدلیہ سے کورٹ فیس کی صورت میں کروڑوں روپے ماہانہ آمدنی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس رقم میں سے کچھ پیسے عدلیہ کے مسائل کے حل پر بھی خرچ کر دیئے جائیں تو نتائج حیرت انگیز اور حوصلہ افزا ہوں گے۔

ارشاد حسن خان

 سابق چیف جسٹس 

بشکریہ نوائے وقت

Post a Comment

0 Comments