ملکی معیشت کو درپیش یوں تو چیلنجز پوری قوم کے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں، تاہم فصلوں پر نازل ہونے والے ٹڈی دل کے ناگہانی طوفان سے بے خبری کا قومی المیہ کسی سے کم نہیں۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران ٹڈی دل کے پے درپے حملوں نے ملک کے چاروں صوبوں اور اس کے بیشتر اضلاع کی زراعت کے لیے خطرے کی جوگھنٹی بجائی اسے سندھ ، پنجاب ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے لیے تشویشناک قرار دیا گیا تاہم وفاق اور تمام متعلقہ صوبائی حکومتوں اور سرکاری محکموں نے ٹڈی دل کے خطرے پر کسی قسم کی ٹھوس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اتنا ضرور ہوا کہ کچھ روز قبل ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان ٹڈی دل کے سدباب کے لیے اقدامات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا، سندھ حکومت نے وفاق سے مطالبہ کیا کہ ٹڈی دل کے سدباب کے لیے اسپرے اور دیگر اقدامات کے لیے کارروائی کی جائے، لیکن وزارت زراعت اور دیگر متعلقہ اداروں نے اس خطرے کے سائنسی اور دیرپا حل کے لیے اپنا روڈ میپ دینا اور اسے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سامنے رکھنا چاہیے تھا مگر وہ سب چپ کا روزہ رکھے ہوئے تھے، غالباً حکومت نے ٹڈی دل کے مسئلے کو کبھی اپنی اولین ترجیح نہیں سمجھا، صوبائی حکومتیں بھی اس خیال خام میں گرفتار تھیں کہ کسانوں اور ہاریوں کے ڈھول باجوں کے شور سے ٹڈی دل گھبرا کر کسی اور طرف نکل جائیں گے۔
لہٰذا دیکھنے میں یہی آیا کہ وفاقی اور صوبائی ارباب اختیارکی طرف سے کوئی مربوط پالیسی ، پیشگی ٹھوس اقدامات اور ٹڈیوں کی کمیں گاہوں ، ان کی افزائش نسل اور تباہ کاریوں کے انسداد کے لیے ’’ فل اسکیل فضائی اسپرے‘‘ کے لیے موثر میکنزم ہی وضع نہیں کیا گیا۔ چنانچہ اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹڈی دل کے حملوں سے کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں ، لوگوں نے اپنی آنکھوں سے میڈیا پر ٹڈیوں کی فضائی افواج کو چینگیز و ہلاکو کی طرح تباہی مچاتے دیکھا اور پل بھر میں سرسبز و شاداب کھیتوں، کھلیانوں ، باغات اور فصلوں کو بنجر میدان بنا کر رکھ دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں ، عالمی ادارہ خوراک نے کہا ہے کہ گزشتہ 25 سالوں میں پہلی مرتبہ ٹڈی دل نے فصلوں کی تباہی کے اندوہناک خطرات پیدا کیے، اور انسانی خوراک، سماجی زندگی اور زرعی شعبے کی بنیاد ہلا کر رکھ دی ، بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ ماہ جون میں ٹڈی دل کے خطرات امڈ آئے لیکن ارباب اختیار خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے ، قوم چین میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی خبریں سننے میں مشغول رہی اور ٹڈی دل زرعی شعبے کا جنازہ نکال کر لے گئے۔
ادھر جریدہ ورلڈ ایشیا نے خبردار کیا تھا کہ ٹڈی دل کے حملوں کی پاکستان کی کپاس کی فصل بھی ٹارگٹ بنے گی جس کے نتیجہ میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو آگے جا کر شدید نقصان پہنچے گا ، غذائی اجناس کی قلت پیدا ہو گی اور فوڈ سیکیورٹی کے خطرات دوچند ہو سکتے ہیں ، مگر اس موقع پر بھی بے حسی، عدم توجہی اور تجاہل عارفانہ ہمارے طرز حکمرانی کا اجتماعی وطیرہ بنا رہا اور بحیثیت مجموعی وزارت زراعت و خوراک کے حکام اسی گمان میں رہے کہ ٹڈیوں کے فضائی قافلے ایران سے آئیں گے اور پھر گزر ہی جائیں گے۔ اس الم ناک اور مجرمانہ غفلت میں ملوث عناصرکی معافی ناقابل قبول ہے جب کہ ضرورت اب بھی فوری اقدامات کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام صوبائی حکومتیں اشتراک عمل اورٹڈی دل کے خطرہ سے نمٹنے کے لیے اتنی ذمے داری ، جواب دہی ، مستعدی اور تشویش کے انسانی عنصرکو پیش نظر رکھتیں جس کا مظاہرہ افریقہ کے ایک غریب ملک صومالیہ کی وزارت خوراک و زراعت نے تھا۔
صومالیہ کی حکومت نے حکام فوری طور پر الرٹ جاری کیا ، قومی ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ، ایک انگریزی معاصرکے مطابق دارالحکومت موغا دیشو میں ایک بیان کے ذریعہ ٹڈی دل کے فضائی سفر کے تسلسل کو تشویشناک قرار دیا گیا، حکومت کا کہنا تھا کہ ٹڈی جیسے معمولی کیڑے insect نے خطرات میں اضافہ کیا ، اس لیے اس ’’جھینگر اور آنکھ پھوڑ ٹڈیوں‘‘ کے لشکر کا سدباب ناگزیر ہے، ملک کے زرعی اور صحرائی علاقے ان کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑے جا سکتے۔ صومالی حکام نے انھیں معیشت کے لیے برا شگون قرار دیا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ حکام بالا ملکی معاشی اور زرعی شعبے کی بدحالی کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹڈی دل کے مسئلہ کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ اس افسر شاہانہ تغافل اور بے پروائی کی قومی معیشت کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
0 Comments