فیصل آباد کا تاریخی دھوبی گھاٹ : یہاں کئی سیاسی اتحاد بنے اور ٹوٹے

پاکستان کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ کا شمار ملک کی اہم سیاسی جلسہ گاہوں میں ہوتا ہے۔ یہاں منعقد ہونے والے جلسوں نے کئی سیاسی تحریکوں میں نئی روح پھونکی اور سیاسی جماعتیں دھوبی گھاٹ میں لوگوں کی کثیر تعداد کو اکٹھا کرنا اپنی بڑی سیاسی کامیابی تصور کرتی رہی ہیں۔ یہاں کئی سیاسی اتحاد بنے اور کئی سیاسی اتحاد ٹوٹے۔ یہاں کئی سیاسی وعدے وفا ہوئے اور کئی سیاسی وعدے بس وعدے ہی رہے اور کبھی پورے نہ ہو سکے۔ سیاسی منظر بدلنے والے اِس میدان کا اپنا منظر وقت کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔ یہاں کبھی اینٹوں کا بھٹہ ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہاں کبھی دھوبی کپڑے دھویا کرتے تھے۔

دھوبی گھاٹ جہاں دامن دُھلتے تھے اور اب یہاں سیاستدان اپنے سیاسی حریفوں کے دامن الزامات سے داغدار کرتے ہیں اور ایک دوسرے پہ کیچڑ اُچھالتے ہیں۔ دھوبی گھاٹ گھنٹہ گھر سے کچھ فاصلے پہ واقع ہے۔ جس کے ایک طرف گورنمنٹ کالج فیصل آباد ہے۔ چند سال پہلے تک گورنمنٹ کالج کی پرشکوہ عمارت یہاں سے گزرنے والوں کو دِکھائی دیتی تھی۔ اِس کالج سے فارغ التحصیل اپنی مادر علمی کو نظر بھر کر دیکھا کرتے مگر اب یہ منظر اوجھل ہو چکا ہے۔ گورنمنٹ کالج کے جنگلے اب آہنی چادر سے ڈھک چکے ہیں۔ آہ اب یہاں سے گزرنے والوں کو سرخی میں ڈوبی ہوئی عمارت نظر نہیں آتی اور نگاہ آہنی دیوار سے پلٹ کر لوٹ آتی ہے۔ اپنی سیاسی شناخت سے بیشتر یہ میدان رواداری کی ایک عمدہ مثال بھی رہا ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے لائل پور میں بسنے والے ہندو اِس میدان میں دسہرہ کا تہوار مناتے اور مسلمان عیدین کی نمازیں یہاں ادا کیا کرتے۔

یوں کہیے کہ اِس کھلے میدان پہ کسی مذہب کا اجارہ نہیں تھا۔ یہ میدان تھا تو سب کا سانجھا مگر دونوں مذاہب اِسے اپنے تہواروں کی نسبت سے الگ الگ نام دیتے ہندو اِسے دسہرہ گرائونڈ کہتے اور مسلمان عید گرائونڈ۔  یہیں 1932ء میں مہاتما گاندھی مجمع سے مخاطب ہوئے ۔ نومبر 1942ء میں قائداعظمؒ لائل پور آئے تو دھوبی گھاٹ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا تھا کہ پاکستان ضرور بنے گا اور لائل پور کو اِس میں اہم مقام حاصل ہو گا۔ دھوبی گھاٹ کے قریب واقع ایک کوٹھی میں قائداعظم ؒنے قیام کیا تھا۔ سرخ اینٹوں سے تعمیر ہونے والی کوٹھی پھولوں کی بیلوں سے ڈھکی رہتی اور چوبی پھاٹک اکثر بند رہا کرتا۔ یہ کوٹھی 2001 ء تک قائم رہی۔

اِس شہر میں قائدا عظمؒ کے قیام کی تنہا یادگار کو گِرا دیا گیا اور یوں یادوں سے مرصع دیواریں ہمیشہ کے لیے زمین بوس ہوئیں اور ریسٹورنٹ بنا دیا گیا، جو شہر کے مرکز میں ہونے کے باوجود چل نہ سکا ۔ پھر ریسٹورنٹ کی عمارت کو ختم کر کے ایک نجی بینک کی عمارت بنائی گئی جو اب قائم ہے۔ دھوبی گھاٹ ملک کی اہم سیاسی جلسہ گاہ کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ یہاں چوٹی کے سیاستدان ، مفکرین اور رہنمائوں نے خطاب کیا ہے۔ مولانا عبدالستار نیازی، شاہ احمد نورانی، اصغر خان ، نوابزادہ نصراللہ خان، ذوالفقار علی بھٹو، محمد نواز شریف، بے نظیر بھٹو، عمران خان اور دیگر کئی ملکی رہنما یہاں خطاب کر چکے ہیں۔ 

دھوبی گھاٹ میں بلند ہونے والے نعرے نہ صرف ملک کے کونے کونے تک پہنچے بلکہ اِن نعروں کی گونج ایوانوں تک بھی پہنچی۔ دھوبی گھاٹ میں کبھی روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ گونجتا رہا ، اور یہیں نو ستارے چمکے اور ایسے چمکے کہ بھٹو کے اقتدار کا سورج ڈوب گیا۔ یہیں بے نظیر بھٹو نے اپنے سیاسی مخالفین پہ تنقید کے تیر برسائے ۔ یہیں مسلم لیگ ن کا شیردھاڑتا رہا ۔ پھر یہیں تبدیلی کے نعرے گونجے اور اِس تبدیلی سے پہلے بھی اِس دھوبی گھاٹ میں سیاسی منظر بدلتے اور یہ شہر کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا اور کبھی مسلم لیگ کا قلعہ اور اب پھر تبدیلی کا ہمنوا ہوا ہے۔ دھوبی گھاٹ میں نہ صرف سیاسی جلسے ہی انعقاد پذیر ہوتے رہے بلکہ یہاں مذہبی پروگرام بھی منعقد ہوتے رہے ہیں۔

دھوبی گھاٹ میں کبھی مشاعرے بھی منعقد ہوا کرتے جہاں لوگ کثیر تعداد میں پہنچ جایا کرتے۔ مشاعرے میں لوگوں کی کثیر تعداد اِس حقیقت کی غماز ہے ۔ شہر کے باسیوں میں شعر کا ذوق بھی بدرجہ اتم موجود رہا ہے۔ مشاعرے کا منظر بھی کیا خوب ہوا کرتا تھا جب دھوبی گھاٹ میں واہ واہ کی صدائیں بلند ہوتیں بے پناہ داد سمیٹتے ہوئے یہاں سے رُخصت ہوتے ہوں گے اور سننے والے دل تھام کے یہاں سے نکلتے ہوں گے۔ مگر اب دھوبی گھاٹ میں مشاعرے کی روایت دم توڑ گئی ہے۔ اب یہاں شاعروں کو سنتے تو ہیں مگر اتنی بڑی تعداد میں نہیں اور مشاعرے چھوٹے ہوٹلوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ 

کوئی آٹھ برس قبل یہاں ایک مستقل سٹیج اور کچھ پودے لگائے گئے، مگر اِن پودوں کے بس پات ہی پات ہیں ۔ یہاں پھول نہیں کھلتے ، ویسے بھی جہاں اتنی دھواں دار تقرریں ہوتی ہوں وہاں پھول کیسے کھلیں؟ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ نئے سیاستدانوں کو بامِ عروج تک پہنچانے والا یہ میدان بار بار سڑکیں تعمیر ہونے سے 20 فٹ نیچے ہو چکا ہے۔ دھوبی گھاٹ کا نام تبدیل کر کے اِسے اقبال پارک کا نام دیا گیا، مگر شہر والے اِسے دھوبی گھاٹ ہی کہتے ہیں۔ حالانکہ اب یہاں دھوبی ہیں نہ کوئی گھاٹ۔ اور اِس سے متصل سڑک کا نام کوتوالی روڈ سے بدل کر علامہ اقبال روڈ رکھا گیا، مگر اِسے بھی کوتوالی روڈ ہی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر والے سڑکوں ، چوکوں اور چوراہوں کے بدلتے ناموں کو جلد قبول نہیں کرتے پتا نہیں کیوں؟

غضنفر ناطق

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment