پچھلے کالم میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریر میں ایک اہم نکتہ کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس کالم میں دوسرے اہم نکتہ پہ بات کی جائے گی۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان سے پیسہ باہر جارہا ہے۔ وہ ممالک جن میں پاکستان سے پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعہ جارہا ہے اگر ہمارے ساتھ تعاون کریں تو ہمیں پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں آسانی ہو گی۔ گزشتہ روز کی اخباری اطلاعات کے مطابق چیئرمین ایف بی آر نے پاکستان سے بھیجے گئے پیسوں کی واپسی کو مشکل یا ناممکن قرار دیا ۔ جبکہ دوسری اخباری خبر کے مطابق ٹیکس ہیون قرار دیئے گئے ممالک کی فہرست سے سوئٹزرلینڈ اور متحدہ عرب امارات کے نکالنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
کیونکہ ٹیکس ہیون ممالک اصل میں منی لانڈرنگ کا اہم ذریعہ ہیں۔ "شکر ہے کفرٹوٹا خدا خدا کر کے"۔ کچھ خیال تو آیا کہ ان یورپی ممالک کی بنائی گئی پالیسیوں سے نقصان کس کا ہوتا ہے اور دولت کون بناتا ہے؟ لہٰذا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ان ٹیکس ہیون ممالک کی فہرست سے کچھ کو گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کر کے نکالا جارہا ہے۔ جب ان ممالک کو ٹیکس ہیون بنایا جا رہا تھا تب عالمی مالیاتی اداروں کو کیوں خیال نہ آیا کہ یہ فیصلہ عالمی سطح پر مالی بدعنوانی، منی لانڈرنگ، عالمی دہشت گردی کے فروغ کا اہم ذریعہ بنے گا؟ کیا عالمی اداروں خاص طور پر امریکہ اور یورپی ممالک کے کئے گئے ہر غلط فیصلوں کا نقصان صرف ترقی پذیر ممالک کو ہی کیوں ہوتا ہے؟
ایف اے ٹی ایف یہ تو پوچھتا ہے کہ آپ کے ملک کا پیسہ دہشت گردی کی مالی معاونت میں استعمال ہوا اور کیوں ہوا؟ لیکن یہ نہیں دیکھتا کہ اس کا براہ راست حصہ دارکون کون سے ملک ہیں؟ یقیناً یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک سے پیسہ باہر جائے اور دہشت گردی کے لیے استعمال ہو تو اس ملک کو دھمکی ملتی ہے اور گرے اور پھر بلیک لسٹ میں نام ڈالا جاتا ہے مالیاتی نظام کو سخت کرنے پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے تمام افراد کو ان " ترقی یافتہ ممالک" میں فوراً پناہ دے دی جاتی ہے ۔ ان کے لائے گئے مال کو " مال غنیمت" سمجھ کر حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے۔
باوجود حکومتی درخواست کے ان کو پاکستانی حکومت تک براہ راست رسائی نہیں دلوائی جاتی نہ ان کے بنک بیلنس کا حساب دیا جاتا ہے۔ یقیناً اب وقت آچکا ہے کہ ان ممالک اور خاص طور پر ان عالمی اداروں کے خلاف آواز اٹھائی جائے جو اس قسم کے عالمی بلاک کی سرپرستی کرتے ہیں۔ یقیناً عمران خان صاحب نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں اس موضوع کو چھیڑ کر عالمی اداروں کو سوچنے پر مجبور کیا کہ تب ہی کئی ممالک کو ان کی تقریر کے بعد سے گرے لسٹ میں ڈالنے اور بہت سوں کو اس بلاک سے باہر یعنی بلیک لسٹ ہی کر دیا گیا ہے۔ آخرکب تک ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کی بدولت یہ یورپین، امریکن اور ٹیکس ہیون ممالک ترقی کرتے رہیں گے؟
0 Comments