All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بھارتی کشمیر میں کشیدگی، معاملہ کیا ہے؟

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے محکمہ داخلہ نے ایک ایڈوائزری جاری کی جس میں وادی میں موجود سیاحوں اور کشمیر کی پہاڑیوں میں واقع ہندوؤں کے مقدس مقام امرناتھ غار کی یاترا پر آئے ہوئے یاتریوں کو دورہ مختصر کر کے جلد از جلد واپس جانے پر زور دیا گیا۔ محکمہ داخلہ کے مطابق یہ ایڈوائزری کشمیر میں پائی جانے والی امن و عامہ کی صورتِ حال اور دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر جاری کی گئی ہے۔ سیاح اور یاتری وادی کے ہوٹل اور دوسرے مہمان خانے خالی کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ مختلف فضائی کمپنیوں نے بھی نئی دہلی اور جموں کے لیے خصوصی پروازیں چلانے کا اعلان کیا ہے۔ سیاحوں اور یاتریوں کی ایک بڑی تعداد سڑک کے راستے جموں کی طرف روانہ ہو چکی ہے۔ محکمہ داخلہ کے جاری اعلامیے سے وادی میں پائی جانے والی کشیدہ صورتِ حال میں اضافہ ہوا ہے۔ 

خوف و ہراس کی فضا میں مقامی لوگوں نے بازاروں کا رُخ کیا جبکہ اشیائے خور و نوش سمیت دیگر چیزوں کی غیر معمولی خریداری کی۔ پیٹرول پمپس پر ایندھن کے حصول کے لیے گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں جبکہ بینکوں کے اے ٹی ایم میں بھی رقوم جلد ختم ہو گئی تھی۔ ریاست بالخصوص مسلم اکثریتی علاقوں میں گزشتہ ایک ہفتے سے شدید خوف و ہراس پایا جارہا ہے جس کی وجہ بھارتی حکومت کی طرف سے ریاست میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی فورسز بھیجنے کا اعلان ہے۔ ان فورسز میں وفاقی آرمڈ پولیس فورسز اور نیم فوجی دستے شامل ہیں۔ مقامی انتظامیہ اور مختلف سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے ایک کے بعد دوسرے ہنگامی نوعیت کے اعلانات کی وجہ سے کشمیر میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ریاست میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ شہری مختلف خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں-

افواہیں ، قیاس آرائیاں اور خدشات
سب سے زیادہ پھیلنے والی افواہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت آئین کی دفعہ 35-اے کو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے منسوخ کرا رہی ہے۔ واضح رہے کہ دفعہ 35-اے کے تحت بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں زمین اور دوسری غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریوں اور وظائف، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو حاصل ہے۔ اس آئینی شِق کے تحت جموں و کشمیر کے قدیم باشندوں کے لیے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون ساز اسمبلی کو حاصل ہے- 

بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو یونین میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ دفعہ 35 آئینِ کی ایک اور دفعہ 370 کی ذیلی شِق ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ میں دفعہ 35-اے کے خلاف کئی درخواستیں زیرِ سماعت ہیں- بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ دفعہ 35-اے کی منسوخی کی صورت میں ریاست میں غیر مسلم افراد کو بسانے کی راہ ہموار ہو گی۔ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں یہ الزام لگا رہی ہیں کہ بھارت کشمیری مسلمانوں کے ساتھ وہی عمل دہرانا چاہتا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کو اُن کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرنے کے لیے کیا ہے۔ 

ریاست تین حصوں میں تقسیم؟
کشمیر میں جو دوسری افواہیں زیر گشت گردش ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرکزی حکومت ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کرنے والی ہے–وادیء کشمیر کو جموں اور لداخ سے الگ کر کے اس کا انتظام فوج کے حوالے کیا جائے گا۔
لداخ کو وفاق کا زیرِ انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا جبکہ جموں میں بڑے پیمانے پر انتظامی رد و بدل کر کے اسے ایک الگ ریاست بنایا جائے گا۔ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فوج اور فضائیہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار پاکستانی کشمیر میں ایسے مقامات اور ٹھکانوں کو ہدف بنانے کی تیاری کر رہی ہے جنہیں بھارت دہشت گردی کے لانچنگ پیڈز سمجھتا ہے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے سیاسی قائدین، کارکنوں، تحریکِ مزاحمت کے نظریاتی ہمدردوں اور عسکریت پسندوں اور ان کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا جا رہا ہے۔  

 یوسف جمیل

بشکریہ وائس آف امریکہ


Post a Comment

0 Comments