یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ انسان کے تشکیل کردہ قوانین کے سامنے لوگوں کے سر تو جھک جایا کرتے ہیں دل نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات ایسے قوانین امتیازی بھی ہوتے ہیں اور نامکمل بھی۔ قانون کا نفاذ سب پر نہ ہو تو قانون کیسا؟ یہ تو قانون سے مذاق کے مترادف ہے اور معاشرے کی بربادی کا سبب کہ اس پر حدیث مبارکہ کی مہر تصدیق ثبت ہے، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے ’’کہ تم سے پہلی قومیں اس لئے برباد ہو گئیں کہ ان میں کوئی با اثر جرم کرتا تو چھوڑ دیا جاتا اور اگر کوئی غریب اسی جرم کا مرتکب ہوتا تو اسے سخت سزا دی جاتی‘‘، تاریخ اسلام عدل و انصاف کے ایسے بے مثال واقعات سے مزین ہے کہ چشم فلک نے ان کا نظارہ نہ کیا ہو گا۔
ہماری حرماں نصیبی یہ رہی کہ ہم نے اپنے دین کی تعلیمات سے روگردانی کی اور پھر بھٹک کر رہ گئے کہ راستہ کون سا اپنانا ہے، دو کشتیوں کے سوار کنارے کم ہی لگتے ہیں۔ پاکستان میں چند غلط فہمیاں ایسی ہیں جنہیں بروقت دور کرنا ضروری تھا، نجانے کیا مصلحتیں رہی ہوں گی لیکن نقصان یہ ہوا کہ ریاست کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے والوں کو میدان کھلا ملا اور وہ کھل کھیلے۔ یہ تاثر قائم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی کہ پاکستان کے بعض ادارے گویا ہر قسم کے قانون سے بالاتر ہیں، وہی قوم اور ملک کی تقدیر رقم کرتے ہیں، انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا حتیٰ کہ آئین پاکستان بھی نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کوئی بھی پڑھا لکھا اور ذی شعور جانتا ہے کہ مختلف اداروں میں احتساب کے مختلف طریقہ کار ہیں۔
فوج ہی کی مثال لے لیں جس کا ڈسپلن ہی اول تو ہرکسی کو حدود پھلانگنے سے روکتا ہے، اس کے علاوہ ملٹری پولیس، ملٹری انٹیلی جنس اور آرمی کا اپنا ایک عدالتی نظام ہے، جو تفتیش، سماعت اور فیصلہ سنانے کا مکمل عمل ہے اور اس سے کسی کو رستگاری نہیں ہے، خواہ کوئی کتنا ہی بڑا یا با رسوخ افسر ہو۔ مثال ایک بریگیڈیئر (ر) راجا رضوان اور ڈاکٹر وسیم کو سزائے موت اور ایک لیفٹیننٹ جنرل کو 14 سال کی قید با مشقت کی ہے جن پر ایک غیر ملکی ایجنسی کو معلومات فراہم کرنے کا الزام تھا، آئی ایس پی آر کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال پر جاسوسی کے الزامات تھے اور آرمی چیف کی ہدایت پر ان کا کورٹ مارشل کیا گیا۔ این ایل سی اسیکنڈل میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد افضل اور میجر جنرل (ر) خالد زاہد اختر کا بھی کورٹ مارشل کیا گیا۔ تینوں افسروں کا پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان آرمی میں ہر کوئی جوابدہ ہے، آرمی چیف کی جانب سے سزا کی توثیق کڑے احتساب کے نظام کا مظہر ہے، جاسوسی یا منی لانڈرنگ سے کمایا گیا پیسہ کرپشن ہی ہے، فوج کے اندر احتساب کا انتہائی مضبوط نظام ہے۔ غیر ملکی جاسوسی کے الزام میں اعلیٰ فوجی افسروں کے کورٹ مارشل اور پھر سزا کا میڈیا پر اعلان کرنے کی ٹائمنگ ایک بڑی پیش رفت تو ہے ہی غور کرنے والوں کے لئے تفکر کے در بھی وا کر رہی ہے۔ فوج کا ڈسپلن اس کے جزاو سزا کے نظام کی بدولت ہی قائم و دائم ہے جس کے لئے اس کے اپنے ادارے ہیں جو ہمہ وقت حرکت میں رہتے ہیں اور مختلف افسروں یا جوانوں کو مختلف معاملات پر سزائیں بھی دی جاتی رہتی ہیں اور یہی فوج کی کامیابی کی کلید ہے یعنی کہ اس کا ڈسپلن۔
جہاں تک حالیہ فیصلے کو میڈیا کے سامنے لانے کا تعلق ہے اس پر قیاس آرائیاں اور تجزیے، تبصرے جاری ہیں۔ خاص طور پر منی لانڈرنگ کو جاسوسی سے ملانے پر کہ جاسوسی کی سزا موت ہے۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ دکھانا مقصود ہے کہ احتساب کے عمل سے کوئی بھی ماورا نہیں خواہ وہ کسی بھی اعلیٰ عہدے پر ہو، اگر مقصد یہ ہے تو اس میں خرابی نہیں اچھائی ہے تاکہ کرپشن کی شرح کو کم ترین سطح پر لانے کی طرف سفر شروع ہو سکے۔ اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ ادارہ کوئی بھی ہو اسے اپنی اصلاح پر توجہ دینا ہی ہو گی۔ ہمیں مل کر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔ جس دن ہم نے یہ حقیقت جان کر اس پر عمل شروع کر دیا ہماری خوشحالی کا سفر شروع ہو جائے گا۔
0 Comments