امریکی مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زاد چاہتے ہیں کہ جلد از جلد کوئی ایسا معاہدہ طے پا جائے، جو افغانستان سے امریکی دستوں کے انخلاء کو ممکن بنائے۔ تاہم کسی امن معاہدے تک پہنچنے کا راستہ رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے امریکا زور دیتا آیا ہے کہ کابل حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات ہونا چاہییں۔ خلیل زاد نے ستمبر میں یہ منصب سنبھالنے کے فوری بعد ہی طالبان عسکریت پسندوں سے رابطے شروع کر دیے تھے۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس جنگ پر اٹھنے والے اخراجات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
ساتھ ہی ایسی رپورٹیں بھی سامنے آ چکی ہیں کہ امریکا رواں برس موسم گرما میں افغانستان میں موجود اپنے دستوں کی تعداد میں نصف تک کی کمی کر دے گا۔ اس صورتحال سے یہ احساس ہوتا ہے کہ زلمے خلیل زاد کو اپنے مشن کو فوری مکمل کرنا ہو گا، یعنی انہیں جلدی ہی کسی امن معاہدے تک پہنچا ہو گا۔ طالبان نے افغانستان پر 1996ء سے 2001ء تک حکومت کی۔ انہوں نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی میزبانی بھی کی تھی۔ اتحادی افواج کی جانب سے افغانستان پر حملے کی ایک بڑی وجہ بن لادن کو گرفتار کرنا اور دہشت گردی کا خاتمہ تھا۔ افغانستان میں گزشتہ سترہ برسوں سے امریکی فوجی تعینات ہیں، جن کی تعداد تقریباً پندرہ ہزار بنتی ہے۔
امریکا متعدد مرتبہ باور کرا چکا ہے کہ وہ افغان سربراہی میں امن عمل چاہتا ہے۔ تاہم آج کل خلیل زاد اور طالبان کی سیاسی قیادت کی بات چیت میں چند سابق جنگجو کمانڈر بھی شامل ہیں۔ یہ بات چیت قطر میں ہو رہی ہے۔ اس دوران خلیل زاد پاکستانی حکام سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چین، بھارت اور روس بھی خطے کو مستحکم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ان ممالک کی طرف سے دراصل اس خطے میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنا ہے۔ خلیل زاد کے بقول امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق، قانون کا احترام اور آزادی اظہار کی پاسداری کی جائے تاہم ان کے بقول اپنے حقوق کے لیے بات چیت افغان باشندوں کو خود کرنا ہو گی۔
0 Comments