پاکستان میں ایسے اِداروں کی تعداد آٹے میں نمک ہی کے برابر ہے، جنہیں بین الاقوامی سطح پر توقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ’’سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یوروآلوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن ‘‘ ( SIUT ) اُن ہی معدودے چند اِداروں میں سے ایک ہے۔ ایک اِدارہ، جو فی الحقیقت خواب کی تعبیر ہے۔ ایک ادارہ، جو کارِ مسلسل کی اِک تصویر ہے، جس کے مصوّر کو دنیا ’’ ڈاکٹرادیب الحسن رضوی ‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ دن رات مریضوں کی خدمت کرنا، بیماروں کی شفا یابی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنا اُن کے لیے راحت کا ایک ذریعہ ہے، وہ مذہب و ملّت کی تفریق کے بغیر ہر ایک کا دُکھ درد بانٹتے ہیں۔ 11 ستمبر 1938 ء کو ہندوستان کی ایک ریاست، اُتّر پردیش (یوپی) کے ضلعے، جون پور سے کچھ فاصلے پر واقع ایک علاقے ’’کلان پور‘‘ میں ایک بچّہ پیدا ہوا، جس کا نام ’’ادیب الحسن ‘‘رکھا گیا۔ اُس کے والد تعلیم یافتہ و محنتی انسان تھے، جو ترقی کرتے کرتے، جون پور میں چیف انجینئرکے عہدے تک پہنچے ۔
ادیب الحسن کی والدہ نے، شوہر کی تنخواہ سے نہ صرف بچّوں کی تعلیم و تربیت کی ، بلکہ پائی پائی جوڑتی بھی رہیں، جب کچھ پیسے جمع ہو گئے، تو تھوڑے سے رقبے پہ مشتمل ایک زمین خرید لی۔ یوں گھر کی آمدنی میں کچھ اِضافہ ہو گیا اور گھر کا نام ’’راحت منزل‘‘ رکھ دیا گیا۔ ادیب الحسن ، 9 بہن ، بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ گھر کاماحول ایسا تھا کہ اُن کی زمینوں پر کام کرنے والے، ہندو بھی گھر والوں سےاُسی طرح گھُلے مِلے رہتے کہ یہ سمجھنا دُشوار ہو جاتا کہ گھر کا مالک کون ہے۔ ادیب الحسن کے والد مزارعین کی اولاد سے بھی اپنی ہی اولاد کا سا برتاؤ کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ ادیب الحسن کو بھی انسانوں اور جانوروں سے بہت اُنسیت ہو گئی۔ برّصغیر میں جاری سیاسی شورش کے باعث ادیب الحسن کو بھی اِردگرد رُونما ہونے والے واقعات سے یک گونہ لگاؤ محسوس ہونے لگا، اقبالؔ کی شاعری بھی اُس کے ذہن و دل کو بہت متاثّر کرتی ۔
ابھی ابتدائی تعلیم ہی مکمّل ہوئی تھی کہ تقسیم ِہند کا وقت آ گیا۔ 1947 ء کے فسادات کے نتیجے میں ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آگ و خون کی، جو ہولی کھیلی گئی، اُس میں بے گناہ لوگ تَہ تیغ کر دیئے گئے۔ عُمر کی ناسمجھی اور سمجھی کی سرحد کے درمیان کھڑے، ادیب الحسن پراس تمام تر صورت حال کا گہرا اثر ہوا۔ اُس نے صدقِ دل سے دُعا کی کہ ’’پروردگار ! مجھے کوئی ایسا موقع فراہم کر کہ میں عام آدمی کے دُکھوں کا مداوا کرنے کی کوئی نہ کوئی سبیل فراہم کر سکوں۔‘‘ شاید یہ دُعا کی مستجابی کا کوئی لمحہ تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ، ہندوستان سے ہجرت کر کے نئی مملکت پاکستان میں آباد ہونے لگے۔
تاہم ، ادیب الحسن رضوی کے گھرانے نے ہندوستان ہی میں رہنےکو ترجیح دی۔اُس پر اپنے والد کی شخصیت کا اثر اس قدر گہرا تھا کہ دل میں یہ خیال راسخ ہو گیا کہ وہ بھی اُنہی کی طرح انجینئر بنے گا۔ دوسری جانب ادیب الحسن سے بڑے ایک بھائی طب کی تعلیم حاصل کر رہے تھے، اُن کی والدہ اس حوالے سے بہت شاد تھیں، کیوں کہ وہ چاہتی تھیں کہ اُن کی اولاد میں سے کوئی نہ کوئی ڈاکٹر ضرور بنے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ والدہ کے والد (ادیب الحسن کے نانا) بھی ڈاکٹر تھے۔ ادیب الحسن کے بھائی نے میڈیکل کی تعلیم کے ابھی چند ہی مدارج طے کیے تھے کہ وہ حادثاتی طور پر پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔ ادیب الحسن نے انہی دنوں میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ تاہم، بڑے بھائی کی حادثاتی موت نے اسے اِس بات پر آمادہ کیا کہ اب وہ ڈاکٹر بن کر اپنی ماں کے خواب کو تعبیر دے گا۔
یہ 1955 ء کا ذکر ہے، جب ادیب الحسن کے والدین نے بیٹے سے کہا کہ وہ بہتر مستقبل کے لیے پاکستان چلا جائے۔ ماں باپ کی خواہشوں کا ہر پَل احترام کرنے والا بیٹا، بِناکسی تردّد، پاکستان کے لیے رختِ سفر باندھنے پر آمادہ ہو گیا۔ اُسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ نئی سرزمین پر قدم جمانے میں کافی دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا، مگر اللہ کے بھروسے ، ماں باپ سے حاصل کی گئی تربیت اور اپنے زورِ بازو سے کچھ کر دِکھانے کی لگن نے خوش اُمیدی کی راہ دِکھانا شروع کی ۔ متوسّط گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے ادیب الحسن کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ عام آدمی کو، چاہے وہ ہندوستان میں رہنے والا ہو یا پاکستان میں، زندگی کے روزمرّہ معاملات سے نمٹنے کے لیے قدم قدم پر دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان آنے کے بعد ادیب رضوی نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنی شروع کی اور اُس وقت ملک کے دارالحکومت ، کراچی میں موجود ایک ہاسٹل کو اپنی قیام گاہ بنایا۔ یہاں رہ کر ادیب الحسن کو معلوم ہوا کہ ہاسٹل میں رہنے والے بہت سے طالبِ علم ، سخت معاشی تَگ و دَو کا سامنے کرتے ہیں۔ کسی کے ماں، باپ نے گھر بیچ کر اِس امّید پر تعلیم حاصل کرنے بھیجا ہے کہ وہ ڈاکٹر بن کر اُن کا نام روشن کرے گا، تو کسی کا بچّہ اپنے غریب ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا بننےکے لیے تعلیم حاصل کرنے آیا ہے۔ ایسے طلبہ بھی تھے ، جو ڈاکٹر بننے کے لیے گھر گھر ٹیوشن پڑھا کر اپنی تعلیم اور ہاسٹل کی رہائش کا خرچ اُٹھاتے تھے۔ ادیب الحسن رضوی نے یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد طلبہ کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے ’’ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ ( ڈی ایس ایف ) میں نہ صرف شمولیت اختیار کی، بلکہ اس میں ایک فعال کردار بھی ادا کرنا شروع کر دیا۔
تربیت کا ایک حصّہ یہ بھی تھا کہ بہ طور طالب علم کچھ اخبار ہاتھ میں تھما دئیے جاتے کہ انہیں بیچا جائے، مگر ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کر دی جاتی کہ اخبار کسی کچرے کی ٹوکری میں نظر نہ آئیں۔ کیفے ٹیریا میں طالبِ علم بیٹھتے، تو ایک کپ چائے کا آرڈر دے کر، اُس کے ساتھ دو پیالیاں منگواتے ، تاکہ چائے بھی پی لی جائے اور کچھ پیسے بھی پس انداز کر لیے جائیں۔ ادیب الحسن نے یہ سارے کام کیے اور ایسا کرنے کا سبب صرف اور صرف یہ تھا کہ کسی بھی طرح اپنے ساتھیوں، اِرد گِرد رہنے والوں کی مدد کی جا سکے۔ تاہم ، اُنہوں نے اِن تمام سرگرمیوں کا حصّہ ہوتے ہوئے بھی، کبھی تعلیم سے پہلو تہی نہ کی۔ جب 1961 ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج سے گریجویشن کی تعلیم مکمّل ہوئی، تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنےکے لیے برطانیہ جانے کا ارادہ کر لیا۔
یوں برطانیہ سے سرجری کی تعلیم حاصل کی۔ یہ اُن کے برطانیہ میں قیام اور وہاں کے سماج کو گہری نظر سے دیکھنے ہی کا نتیجہ تھا کہ برطانوی طبّی ادارے ’’نیشنل ہیلتھ سروس‘‘ کی کارکردگی نے اُنہیں از حد متاثر کیا، جہاں بِلا معاوضہ علاج کی سہولتیں فراہم کی جاتی تھیں۔ وہیں، ڈاکٹر ادیب نے یہ سُہانا خواب دیکھا کہ مَیں بھی اپنے وطن میں ایک ایسا طبّی ادارہ قائم کر رہا ہوں، جہاں لوگوں کو بغیر رقم خرچ کیے علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ خواب ڈاکٹر ادیب رضوی کے لیے ’’رویائے صادقہ‘‘ سے کم نہ تھا۔ سو، متجسّس طبیعت اُس کی تعبیر پانے کے لیے مصروف ہو گئی۔ پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں ، جب بیرونِ ملک جانے کا رواج اتنا عام نہیں تھا اور جو لوگ جاتے ، وہ واپس آنے کے بارے میں شاید سوچنا بھی گوارا نہ کرتے، ڈاکٹر ادیب رضوی نے برطانیہ سےاپنی سرزمین پر واپس جانے کے لیے اس عزمِ صمیم کے ساتھ کہ دُکھیاروں کے دُکھ درد بانٹنا ہی زیست کا حاصل ہے، رختِ سفر باندھا.
کیوں کہ انہیں اپنے خوابوں کو تعبیر دینا تھی۔ 1970 ء میں، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی زندگی نے اُس وقت ایک نیا اور حسین موڑ لیا، جب ڈاکٹر ہاجرہ اُس میں داخل ہوئیں۔ اسی کے ساتھ ہی دونوں میاں بیوی مِل کر اہلِ وطن کی کُلفتوں کو راحتوں میں تبدیل کرنے کے کارِ احسن میں مصروف ہو گئے۔ ڈاکٹر ہاجرہ اور ڈاکٹر ادیب کے 2 بچّے (ایک بیٹا اور بیٹی) ہیں۔ زندگی کے اُتار چڑھاؤ میں ڈاکٹر صاحب کا ساتھ دینے والی اُن کی رفیقِ حیات 13 دسمبر 2011 ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ 1971 ء میں ڈاکٹر ادیب نے سول اسپتال ، کراچی سے بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر، یوروآلوجی وابستگی اختیار کی اور وہاں آٹھ بستروں پر مشتمل چھوٹی سی جگہ میں گُردوں کا ایک وارڈ قائم کیا، جس کا نام ایس آئی یو ٹی رکھا گیا۔ یہ گویا ایک نئی صُبح کا آغاز تھا۔
مریضوں کے علاج کے سلسلے میں ڈاکٹر ادیب اسپتال میں ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتے اور محسوس کرتے کہ وہاں تعیّنات ڈاکٹرز، مریضوں کے لیے نسخے تجویز کرتے ہوئے اُن کے متعلقین کو دَوا لانے کے سلسلے میں ہدایات بھی جاری کرتے ہیں ، مگر اُن میں سےبہت سے لوگ ایسے ہیں ، جن کے پاس دوا خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے ۔ اُن حالات کے پیشِ نظر ڈاکٹر ادیب نے طے کیا کہ وہ ایسا نظام بنائیںگے کہ جیسے ہی کوئی اسپتال کی حدود میں قدم رکھے ، اُس کے تمام تر اخراجات اسپتال کے ذمّےآجائیں۔ آہستہ آہستہ ایس آئی یو ٹی نے اپنی جگہ بنانی شروع کر دی۔ لوگوں کے عِلم میں آنے لگا کہ یہاں گُردوں کا اچھا علاج کیا جاتا ہے۔ 1980 ءکا عشرہ آتے آتے تو ایس آئی یو ٹی نے نہ صرف اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے ، بلکہ اُس کا نام اور کام پورے ملک میں گونجنے لگا۔ اب علاج کے لیے جدید مشینوں سے مدد لینا بے حد ضروری ہو گیا تھا، تو ڈاکٹر ادیب نے اس بھاری پتھر کو چوم کے چھوڑا نہیں ، بلکہ اُسے ہنستے کھیلتے اُٹھانے کا فیصلہ کیا۔ بس پھر کیا تھا’ ’؎ مَیں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر… لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘ کے مصداق، صاحبِ ثروت لوگ ، اِدارے اور حکومت بھی ڈاکٹر صاحب کے اِس عظیم مقصد میں اپنا حصّہ ڈالنے کے لیے آگے آتے چلے گئے ۔
سن 1990 ءکا عشرہ شروع ہوا، تو ادارہ پھیلتے پھیلتے امراضِ گُردہ کا مستند ترین نام بن چکا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ ڈاکٹر ادیب رضوی اور ایس آئی یو ٹی، ایک سکّے کے دو رُخ قرار پا چکے تھے۔ اب اسپتال نے اپنے لیے جداگانہ اُصول و قواعد مرتّب کر لیے۔ تاہم ، اس میں اوّلین حیثیت مریضوں کو حاصل تھی ۔اسپتال میں عورتوں، مَردوں، بچّوں، سیاست دانوں حتیٰ کہ جرائم پیشہ افراد تک کا بلاتخصیص علاج کیا جانے لگا۔ مریضوں کو جو غذا اور لباس مہیّا کیے جاتے، وہ بھی سب کے لیے یکساں ہوتے۔ ایس آئی یو ٹی کے مریضوں کا کہنا ہے کہ یہاں ’’ محمود و ایاز‘‘ میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ بلکہ کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ سامنے والے بستر پر ، کوئی مفلوک الحال ہے یا مالامال ؟ آج صورتِ حال یہ ہے کہ اسپتال میں ہر سال مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ بغیر کسی ترتیب میں جائے اگر محض 2015ء ہی کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالی جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ گُردوں کی پیوند کاری (ٹرانسپلانٹ ) کی تعداد 300 اور ڈائلیسسز کی تعداد 260,000 رہی۔
ایک ایسے مُلک میں، جہاں شعبۂ تعلیم سے شعبۂ طِب تک کام کرنے والے تمام اداروں کی کارکردگی حوصلہ شکن قرار دی جا تی ہے، ڈاکٹر ادیب اور اُن کا قائم کردہ ادارہ کامیابی کی درخشاں مثال ہے۔ اُن کی بے غرض اور اَن تھک خدمات کے باعث ایسے افراد کی کمی نہیں ،جو یہ صدا لگاتے نظر آتے ہیں کہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو نوبیل انعام سے سرفراز کیا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر ادیب جیسے بے مثل لوگ، سرفرازی کی اُس منزل پر فائز ہوتے ہیں، جہاں نوبیل جیسے انعامات سے اُن کی شان اور توقیر میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوتا، البتہ انعامات کی توقیر ضرور بڑھ جاتی ہے۔ تقریباً 2 برس قبل ،پاکستان میں اقوام ِمتحدہ کے نمائندے ، نیل بھونے، نے جب ایس آئی یو ٹی کا دورہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ’’ایس آئی یو ٹی ، مخصوص طبّی سہولتوں کی فراہمی کی ذیل میں دنیا کے لیے ایک رہنما ادارہ ہے۔‘‘ ’’شیخ حمدان بن راشد المکتوم میڈیکل سائنس‘‘ نامی ایک رسالے میں کچھ عرصے پہلے، ایک مضمون میں ڈاکٹر ادیب رضوی کے بارے میں تحریر کیا گیا کہ ’’گُردوں کی پیوند کاری میں ایس آئی یو ٹی کی کامیابی کی شرح، بین الاقوامی طبّی اداروں کے مقابلے میں غیر معمولی ہے ۔ اگر اس میدان میں پروفیسر رضوی کی انسانی بنیادوں پر انجام دی جانے والی خدمات نہ ہوتیں، تو شاید ہزاروں مریض زندگی سے محروم ہو چکے ہوتے۔‘‘
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو متعدّد قومی اور بین الاقوامی اعزازات و انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔ تاہم ، اس باب میں سب سے درخشندہ مثال یہ ہے کہ انعامات کی مَد میں حاصل ہونے والی رقم کا ایک پیسا بھی ڈاکٹر صاحب کبھی اپنے گھر نہیں لے کر گئے، بلکہ ایس آئی یو ٹی کے فنڈزہی میں جمع کروا دیا ۔ اس حوالے سے سب سے بڑی اور حیران کُن بات یہ ہے کہ واقفانِ حال کا کہنا ہے، اُنہوں نے اپنے بچّوں کی شادی پرملنے والے پیسے یا تحائف بھی ایس آئی یوٹی کی نذر کر دیئے۔نفسا نفسی کی اِس دنیا میں ڈاکٹر ادیب جیسے بے رِیا اور انسانیت نواز شخص کو دیکھ کر یہ یقین ہو جاتا ہے، کہ قدرت زمین پر اپنی رحمتوں کے خزانے میں سے کچھ نہ کچھ زر و جواہر اُتار کر یہ احساس دلاتی رہتی ہے کہ بُرے وقت میں بھی اچھےانسان کُرّۂ ارض کو اپنے وجود سے مہکانے اور چمکانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کا کہنا ہے کہ ’’ دنیا میں پاکستانی عوام کا جواب نہیں، جو خدمت ِخلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔‘‘
وہ فخریہ بیان کرتے ہیں کہ اُن کی کام یابی میں جہاں اُن کو میسّر اچھی ٹیم کا حصّہ ہے، اُتنا ہی حصّہ پاکستان کے عوام کا ہے ، جو اسپتال کو اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر عطیات سے نوازتے ہیں۔ اس وقت ایس آئی یو ٹی میں روزانہ 970 ڈائلیسز کیے جاتے ہیں اور اب تک 5680 ٹرانسپلانٹ ہو چکے ہیں۔ آج کل ایک دن میں دو ٹرانسپلانٹس کیے جا رہےہیں، جب کہ او پی ڈی میں روزانہ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ نہ صرف گُردوں کے مرض میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال کا انتہائی موثّر انتظام موجود ہے، بلکہ گُردے عطیہ کرنے والوں سے بھی مسلسل رابطہ رکھا جاتا ہے۔ یاد رہے ، گُردوں کا علاج (جس میں ڈائلیسز اور پیوند کاری دونوں شامل ہیں)، انتہائی مہنگا ہے ۔ کھاتے پیتے گھرانے کے افراد بھی عام طور پر اس کے متحمّل نہیں ہو پاتے، کیوں کہ اِس پورے عمل کے لیے لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں، مگر ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے مسیحا نے علاج کا بِلا معاوضہ نظام متعارف کروا دیا ہے۔
بہترین سہو لتوں کے ساتھ مہنگا ترین علاج ، وہ بھی بِلا معاوضہ ، متانت اور وقار کے ساتھ ،اس شکل میں کہ کسی کی دل شکنی بھی نہ ہو، ڈاکٹر ادیب اور ایس آئی یو ٹی کا مشن بھی ہے اور وِژن بھی۔ اب تو ، ایس آئی یو ٹی نے کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کے لیے بھی کام شروع کر دیا ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کا ارادہ ہے کہ ایس آئی یو ٹی کی مزید شاخیں مُلک کے دیگر صوبوں میں بھی قائم کی جائیں، تاکہ لوگوں کو علاج کروانے کے لیے، دور دراز کا سفر نہ کرنا پڑے۔ بلا شبہ ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے لوگ کسی بھی سماج کے لیے قدرت کا ایک بہترین تحفہ اور سرمایہ قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ اگر وہ بیرونِ ملک ہوتے، تو نہ جانے کتنی دولت اور شہرت سمیٹ چکے ہوتے، مگر عوام سے محبت کرنے والے اس مسیحا نے اپنے لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے ، اُن کی مشکلوں کو راحت میں بدلنے کا جو عزم کیا تھا ، اُسے پورا کر دکھایا اور آج بھی اسی تن دہی اور لگن سے لوگوں کی خدمت میں مصروف ِ عمل ہے کہ جیسا اپنی عملی زندگی کے آغاز میں اپنے آ پ سے عہد کرتے ہوئے کیا تھا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی محض ایک شخص کا نام اور ایس آئی یو ٹی، صرف ایک ادارہ نہیں، بلکہ ان کے دَم سے ہزارہا لوگوں کی اُمیدوں اور آرزؤں کے نہ جانے کتنے ہی چراغ روشن ہیں۔ آج ہم اقوامِ ِعالم کے سامنے سر اُٹھا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے لوگ اورایس آئی یو ٹی، جیسے ادارے موجود ہیں۔ دُعا ہے کہ پروردگار ہمارے پیارے وطن میں اِن روشن چراغوں کو سدا روشن رکھے۔
0 Comments