آزاد کشمیر کی ’’وادئ نیلم‘‘ کو قدرت نے نہایت فیّاضی سے حُسن و دل کشی اور رعنائی عطا فرمائی ہے۔ جابجا بہتے جھرنوں، آبشاروں، جھیلوں نے وادی کے حُسن کو ایسے چار چاند لگائے ہیں کہ اِسے بجا طور پر ’’خُوب صورتی سے تراشا ایک ہیرا‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں کے حسین و دل کش مناظر میں سرِفہرست بلند و بالا سرسبز پہاڑ، بہتے آب شار، سبک رفتاری سے بہتا دریائے نیلم اور اس کے اطراف خوب صورت باغات ہیں۔ سیرو سیّاحت سے دل چسپی رکھنے والوں کو ہمارا مفت مشورہ ہے کہ زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور وادئ نیلم کا سفر کریں اور انتہائی کم خرچ میں دنیا کے بہترین قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوں۔
وادئ نیلم کی سیّاحت کے لیے مئی سے ستمبر تک کے مہینے موزوں ہیں، لہٰذا ہم نے بھی جولائی کے وسط میں وادی کی سیّاحت کا پروگرام بنایا اور طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنے دوستوں عمران اور بابر کے ساتھ راول پنڈی، فیض آباد سے مظفر آباد (آزاد کشمیر) کے لیے روانہ ہو گئے اور تقریباً چار گھنٹے کے پُرلطف سفر کے بعد بالاخر مظفرآباد پہنچ گئے۔ یہاں سب سے پہلے ہم نے ASCOM کی سِم خریدی، کیوں کہ آزاد کشمیر کے بالائی علاقوں میں پاکستان کے موبائل نیٹ ورکس بند ہو جاتے ہیں، لہٰذا سیّاحوں کے لیے مظفرآباد میں خصوصی طور پر ASCOM کی سِم جگہ جگہ دستیاب ہے۔ سِم بدلوانے کے بعد قریبی کھوکھا نما ہوٹل میں گرم گرم سموسوں کے ساتھ چائے پینے کا لطف دوبالا ہو گیا۔ یہاں سے ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا اور ایک گھنٹے کی مسافت پر’’ نیلم جہلم پاور پروجیکٹ‘‘ پہنچ گئے۔ اگرچہ اس وقت رات کے 8 بج رہے تھے، لیکن پروجیکٹ کے مقام پر دن کا سا سماں تھا۔ ’’نیلم جہلم پروجیکٹ‘‘ کا 85 فی صد سے زیادہ کام ہو چکا ہے اور امید ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ دسمبر 2018ء تک تکمیل کے مراحل طے کرنے کے بعد پاکستان اور آزاد کشمیر کے متعدد علاقوں سے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ کافی حد تک کم کر دے گا۔
یہاں سے آگے ہماری منزل تھی اٹھمقام، جو مظفرآباد سے کوئی ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اٹھمقام، وادئ نیلم کا صدر مقام اور بیس کیمپ بھی ہے۔ اس چھوٹے سے خوب صورت شہر میں ضرورت کی تمام اشیاء بہ آسانی دستیاب ہیں۔ یہاں گیسٹ ہائوسز کے علاوہ بازار، پوسٹ آفس، بینکس، اسپتال، ٹیلیفون ایکسچینج وغیرہ سب ہی کچھ ہے۔ اٹھمقام پہنچتے پہنچتے کافی رات بیت چکی تھی، لیکن اس وقت بھی چند دکانیں کھلی تھیں اور اِکا دُکا سیّاح مٹر گشت کر رہے تھے۔ دریائے نیلم کی دُور دُور تک سنائی دینے والی چنگھاڑ سے پورے ماحول پر ایک ہیبت سی طاری ہو جاتی ہے۔ ساحل پر نصب چِکنے پتھر اس قدر پھسلن زدہ ہیں کہ ان پر پائوں رکھتے ہی انسان اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے، نتیجتاً گہرے دریا کا نوالہ بھی بن سکتا ہے۔ بہرحال، نیلم کی دہشت سے ہم پر بھی کپکپی طاری ہو چکی تھی۔
رات گزارنے کے لیے قریبی ہوٹل کا رُخ کیا۔ ہم میدانی علاقوں کے رہنے والوں کے لیے یہاں کی معمولی سردی بھی برداشت سے باہر ہو رہی تھی، لہٰذا رات کا کھانا کھاتے ہی بستروں میں دبک گئے۔ علی الصباح بیدار ہوئے اور کھڑکی سے باہر کے دل کش و دل فریب منظر پر نظر پڑی، تو مبہوت سے رہ گئے۔ دریائے نیلم، اس سے ملحق پہاڑ اور ان سرسبز پہاڑوں پر لکڑی سے بنے گھر انتہائی حسین نظر آرہے تھے، اس پر مستزاد یہاں چار سُو ہریالی، دُور دُور تک سفیدے کے گھنے جنگلات، دیودار، فر اور اخروٹ کے درختوں کی بھرمار اور مختلف پرندوں کی چہچہاہٹ ایک حسین سماں باندھ رہی تھی۔ دریائے نیلم کے کنارے بنے دو منزلہ لکڑی کے ریسٹورنٹ میں گرما گرم پراٹھوں، انڈوں کا ناشتا کیا اور تازہ دَم ہوکر یہیں سے اگلی منزل ’’کیل‘‘ کی جانب گام زن ہو گئے۔
اٹھمقام اور کیل کے درمیان متعدد حسین و دل کش مقامات آتے ہیں۔ اسی رستے پر LOC (لائن آف کنٹرول) بھی ہے، یہاں دریائے نیلم قدرتی حدبندی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ تاہم، دونوں ممالک کے عوام کو الگ کرنے والی یہ سرحد بھی دونوں طرف کے عوام کو جدا نہیں کر پاتی، یعنی دریا کے اِس پار بھی کشمیر ہے اور اُس پار بھی۔ اِدھر بھی مسلمان ہیں اور اُدھر بھی۔ جو بادل تھوڑی دیر پہلے تک بھارت میں آوارہ پھرتے تھے، تھوڑی دیر بعد پاکستان میں برستے ہیں۔ تہذیب اور رہن سہن بھی دریا کے دونوں جانب یکساں ہے۔ ہم ان ہی سوچوں میں گم تھے کہ ڈرائیور نے اچانک گاڑی روک دی۔ وجہ پوچھی، تو بتایا کہ ’’کیرن گائوں‘‘ آگیا ہے۔ سڑک کے دائیں جانب نشیب کی طرف ایک سرسبز میدان ہے، قریب ہی لکڑی کے خوب صورت گیسٹ ہائوسز بنے ہوئے ہیں۔
یہاں سے مقبوضہ کشمیر کے باسی، ان کے گھر، اسکول، مساجد، میدان اور ان میں کھیلتے بچّے، بھارتی فوج اور ان کی کمین گاہیں سب کچھ صاف نظر آتا ہے۔ دریا کے دونوں جانب امن و امان ہے، چھوٹے چھوٹے، ننّھے منّے بچّے بچیّاں دنیا و مافیہا سے بے نیاز کھیلتے کودتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، یہیں ہم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ دریا کے ا ُس پار کھڑی ایک خاتون چلّا چلّا کر ہاتھوں کے اشاروں سے اس پار کھڑے اپنے بھائی سے باتیں کر رہی تھی۔ اس خوب صورت مقام پر جابجا لگے خیموں میں ملکی و غیرملکی سیّاحوں کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں سے آئے طلباء و طالبات کے مختلف گروپس بھی موجود تھے۔ یہاں دریائے نیلم کا بہائو نسبتاً کم ہونے کے باعث اس کے صاف و شفّاف اور نیلگوں پانی میں قدم رکھا جا سکتا ہے۔
قریب ہی واقع کیرن سیکٹر، چاروں طرف سے سرسبز پہاڑوں میں گِھرا، خوب صورت پھولوں، خوشبوئوں اور چائنیز طرز کے خوب صورت گیسٹ ہائوسز سے بھرا پڑا ہے۔ اگرچہ اس شاندار مقام پر سیّاحت کے لیے کئی گھنٹے تو کیا، کئی دن بھی کم ہیں، لیکن وقت کی قلّت کی وجہ سے ہم یہاں صرف دو گھنٹے قیام کے بعد ہی تشنگیِ دل کے ساتھ اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہماری گاڑی ایک بار پھر ہموار سڑک پر بلندی کی جانب دوڑ رہی تھی۔ لائن آف کنٹرول، جو اٹھمقام سے ہمارے ساتھ شروع ہوئی تھی، مزید کوئی ایک گھنٹے تک شریکِ سفر رہی اور پھر لوت کے مقام پر ہم سے جدا ہو گئی۔ آگے دریا کے دونوں طرف ہمارا کشمیر تھا۔ یہاں سے وادی کا حُسن اور بھی دل فریب ہو جاتا ہے، خصوصاً جب دریا پہ بنے لوہے، لکڑی کے پُل پر گاڑی گزرتی ہے، تو چَرچَر کی خوف ناک آوازوں سے گاڑی میں بیٹھے سیّاحوں کا خون خشک ہونے لگتا ہے۔
بہرحال، ان مسحور کن مناظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرتے ہم تین گھنٹے بعد شادرہ پہنچنے میں کام یاب ہو گئے۔ شادرہ، انتہائی اونچائی پر واقع ایک تاریخی گائوں ہے۔ برسوں پہلے یہاں ایک مندر ہوا کرتا تھا، جو ایک ہندو ملکہ، شادرہ کی وجہ سے ’’شادرہ مندر‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں بھی تمام تعمیرات لکڑی سے کی گئی ہیں، حتیٰ کہ دو اور تین منزلہ عمارتیں بھی لکڑی کی ہیں۔ یہ علاقہ سردیوں میں انتہائی سرد ہوتا ہے۔ شدید موسم میں دریا کا پانی تک جم جاتا ہے۔ شادرہ سے کچھ ہی فاصلے پر آگے بڑھیں تو ’’کیل‘‘ کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ کیل، دراصل ایک بیس کیمپ ہے، جہاں کوہ پیما اور سیّاح مختصر قیام کرتے اور تازہ دَم ہو کر آگے روانہ ہو جاتے ہیں۔
یہاں سیّاحوں کے لیے تمام بنیادی سہولتیں میسّر ہیں۔ ہمارے یہاں پہنچتے پہنچتے شام ڈھلنے لگی تھی، لہٰذا گرم گرم چائے، چپس اور پکوڑوں کے مزے لینے کے بعد پیدل ہی ارنگ کیل کے لیے روانہ ہو گئے۔ جس طرح کیل گائوں ایک وسیع و عریض پہاڑی پر پھیلا ہوا ہے، اسی طرح ’’ارنگ کیل‘‘ بھی ایک دوسری اونچی پہاڑی کی چوٹی پر آباد ہے۔ کیل سے ارنگ کیل جانے کے لیے ایک دیسی ساختہ کیبل کار نصب کی گئی ہے، جو چھے سے آٹھ افراد کو 10 منٹ میں کیل سے ارنگ کیل پہنچا دیتی ہے۔ یہاں اُتر کر ہم پیدل ہی چڑھائی چڑھتے ہوئے کوئی 30 منٹ میں ارنگ کیل کی آبادی تک پہنچے، تو ہماری سانسیں بُری طرح پھول چکی تھیں، لیکن یہاں کا دل فریب منظر دیکھ کر ساری تھکن یک دَم کافور ہو گئی۔ ’’کشمیر جنّتِ نظیر‘‘ کا جملہ یہاں سو فی صد صادق آتا ہے۔
چاروں طرف خوش نُما اور دیدہ زیب رنگوں کے پھول جہاں نظروں کو طراوت بخشتے ہیں، وہیں ان کی مدھر خوش بو سے فضا بھی ہر دم معطر رہتی ہے۔ انتہائی خوب صورت لکڑیوں کے بنے ’’کون نما‘‘ گھر، مساجد، ہوٹلز اور ان پر دیدہ زیب رنگ و روغن آنکھوں کے لیے ایک انتہائی خوش نما منظر تھا۔ یہیں سے پاکستان کی دوسری اور دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی، ’’نانگا پربت‘‘ کا بہ آسانی نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’نانگا پربت کا حُسن ایسا ہے، جیسے کسی بہت ہی حسین دوشیزہ کو چاندی کے بیش بہا زیورات سے آراستہ کیا گیا ہو۔‘‘ ارنگ کیل کو دفاعی نقطہ نظر سے بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔یہاں فوجی چوکیوں پر توپیں نصب ہیں، جو وقت پڑنے پر دشمن کی کمیں گاہیں تباہ کر سکتی ہیں۔ پاکستان کے فوجی جوان ان اونچی اونچی پہاڑیوں پر سال کے بارہ مہینے مورچہ زن رہتے ہیں۔ سرد ترین مہینوں میں جب سردی منفی 25 تک پہنچ جاتی ہے اور بھارتی فوج بھی نیچے جانے پر مجبور ہو جاتی ہے، اس وقت بھی ہمارے جوان سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر مورچوں میں ہر دَم مستعد اور چوکنّا رہتے ہیں۔ ارنگ کیل میں رات کا پہر سحر انگیز تھا، تو صبح بھی اپنی مثال آپ تھی۔
جب صبح ہم اپنے کمروں سے باہر نکلے، تو بارش ہو رہی تھی، بادل اس قدر نیچے تھے کہ بہ آسانی چھوئے جا سکتے تھے۔ ناشتے کے فوراً بعد ہم ایک بار پھر بذریعہ دیسی ریل کار، کیل واپس پہنچ گئے۔ یہاں سے ہمیں تائوبٹ جانا تھا، لہٰذا سیدھے جیپوں کے اڈے پہنچے۔ تائوبٹ تک ذاتی سواری کے ذریعے پہنچنا مشکل ہے، کیوں کہ یہاں باقاعدہ کوئی سڑک نہیں ہے اور پورا راستہ پتھریلا ہے اور پتھر بھی ایسے، جن پر عام گاڑی سے سفر ناممکن ہے۔ ان رستوں پر صرف جیپیں ہی جاتی ہیں، جو مقامی ڈرائیور احتیاط اورمہارت سے چلاتے ہیں۔ کیل سے تائوبٹ کی مسافت تقریباً 10 گھنٹوں پر محیط ہے۔ جس کے لیے کم از کم ایک پورا دن چاہیے۔ کیل سے تائوبٹ کا سفر بھی اپنی نوعیت کا انوکھا اور دل چسپ سفر تھا۔ ہماری جیپ کبھی سرسبز پہاڑوں کے دامن سے گزرتی، تو کبھی انتہائی پتلی راہ داری سے، کبھی اونچے نیچے پتھروں پر ڈولتی، تو کبھی ٹھنڈے ٹھنڈے آبشاروں پر، ان ہی نشیب و فراز کے ساتھ ہم منزلِ مقصود کی جانب گامزن تھے۔
دریائے نیلم کی چنگھاڑ اس وقت زیادہ ہیبت ناک ہو جاتی، جب اس کی لہریں چٹانوں سے ٹکراتیں یا سیکڑوں فٹ بلندی سے گرتیں۔ رستے میں جگہ جگہ قائم چوکیوں پر پاک فوج کے جوان حفاظتی نقطہ نگاہ سے شناختی کارڈ چیک کرتے اور رجسٹر پر اینٹری کرتے جاتے۔ اسی راستے پر ہلمت، جناوائی، سرداری اور کریم آباد سمیت متعدد تفریحی مقامات بھی آتے ہیں۔ کہیں پگھلتے گلیشیئرز، کہیں کسی خوب صورت گائوں کی چمنی سے نکلتا دھواں، تو کہیں کشمیر کے روایتی سرخ پیرہنوں سے مرصّع خواتین آتی جاتی نظر آتی رہیں۔ اسی رستے میں ایک انتہائی خوب صورت گائوں ’’کریم آباد‘‘ بھی واقع ہے۔ اس وقت وہاں گنّے اور مکئی کی فصل لگی ہوئی تھی اور کھیتوں کے اطراف ترتیب سے کون نما لکڑی کے مختلف رنگوں سے مزیّن مکانات دل فریب منظر پیش کر رہے تھے، ان رنگ برنگے گھروں کی خوب صورتی بارشوں میں اور بھی نکھر جاتی ہے۔ دوپہر تک ہم تائو بٹ پہنچے۔ دریائے نیلم کی شروعات بھی یہیں سے ہوتی ہے، یعنی یہی وہ مقام ہے، جہاں بھارت سے آنے والے دریا ’’گنگا کشن‘‘ کا نام تبدیل ہو کر ’’دریائے نیلم‘‘ ہو جاتا ہے۔ یعنی وہ دریا، جو بھارت میں گنگا کشن کہلاتا ہے آزاد کشمیر، پاکستان میں داخل ہوتے ہی دریائے نیلم کہلانے لگتا ہے۔
کیل واپس پہنچے، تو اندھیرا چھا چکا تھا اور موسلا دھاربارش ہو رہی تھی، لہٰذا سیدھے ہوٹل پہنچنے ہی میں عافیت جانی۔ ہوٹل پہنچ کر تازہ دَم ہوئے تو گرم گرم بریانی اور چکن تکّے ہمارے منتظر تھے۔ چوں کہ صبح شونٹر ویلی کا سفر تھا، لہٰذا فوراً بستروں میں دبک گئے اور لحاف اوڑھ کر خوابِ خرگوش کے مزلے لینے لگے۔ صبح پھر ہم نے پورے دن کے لیے جیپ بُک کی اور شونٹر ویلی کی جانب گام زن ہوئے۔ شونٹر ویلی کا رستہ بھی تائوبٹ کی طرح پتھریلا اور کافی پیچیدہ ہے۔ یہاں بھی صرف جیپ ہی سے سفر کیا جا سکتا ہے، جو اونچے نیچے پتھریلے اور دشوارگزار راستوں پر چلتے ہوئے تقریباً تین گھنٹوں میں شونٹر ویلی پہنچا دیتی ہے۔ یہاں ایک چھوٹی سی انتہائی خوب صورت جھیل بھی موجود ہے۔ جھیل سے آگے خاصا دشوار گزار راستہ شروع ہو جاتا ہے، جس پر جیپ کا سفر بھی ممکن نہیں رہتا، لہٰذا مزید آگے جانے کے لیے ہائیکنگ، یعنی پیدل سفر اختیار کیا جاتا ہے۔
یہاں کچھ وقت گزار کر ہم بھی ہائیکنگ کرتے ہوئے چھے گھنٹے طویل سفر کے بعد ہانپتے کانپتے’’چٹاکٹا جھیل‘‘ پہنچے، تو اس کی سحر انگیزی دیکھ کر ساری تھکان بُھلا بیٹھے۔ سطحِ سمندر سے 3800 میٹر کی بلندی پر واقع یہ جھیل اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کی یخ بستہ ہوائیں اپنے اندر ایک عجیب سی مہک لیے ہوئے تھیں، جو سیّاحوں کو اپنے سحر سے نکلنے ہی نہیں دیتیں۔ اس جھیل سے پَریوں اور جِنوں کی کئی داستانیں بھی منسوب ہیں، لیکن باوجود لاکھ کوششوں کے ہمیں کوئی پَری نہیں ٹکرائی۔ بلاشبہ، چٹاکٹا جھیل کو بھی قدرت نے بے پناہ دل کشی و رعنائی سے نوازا ہے۔
دوپہر ڈھلے ہم نے اس عہد کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کیا کہ دوبارہ جلد ہی خوابوں کے اس دیس میں آئیں گے اور اپنی پَری کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ آج ہماری کیل میں آخری رات تھی، کل ہمیں وادئ نیلم کی سب سے خوب صورت جھیل ’’رتی گلی‘‘ دیکھنا تھی۔ علی الصباح ناشتے سے فارغ ہو کر اپنی گاڑی سے روانہ ہوئے اور دواریاں کے مقام، بذریعہ جیپ 4300 میٹر کی بلندی پر موجود، رتی گلی جھیل کا سفر شروع کیا تو ہمیں پتا چلا، پورا ٹریک نہ صرف پتھریلا، ناہموار ہے، بلکہ خون خشک کر دینے کی حد تک خطرناک بھی ہے۔ کئی جگہوں پر عمودی چڑھائی پر ڈرائیور باوجود اپنے فن میں یکتا ہونے کے ایکسیلیریٹر دبائے رکھتا ہے، لیکن جیپ اوپر نہیں چڑھتی اور دوسری طرف گہری کھائی میں دریائے نیلم چنگھاڑتے ہوئے اپنے طرف بلاتا ہوا اور بھی وحشت ناک لگتا ہے۔ بہرحال، آٹھ کلو میٹر کا یہ پُرخطر سفر تین گھنٹوں میں طے ہوا۔ آگے ٹریک پر ایک بڑے سے گلیشیئر کی وجہ سے ٹریک، جیپ کے لیے بند تھا۔
ڈرائیور نے جیپ یہیں کھڑی کر دی اور ہم نے آگے کا سفر پیدل شروع کر دیا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی واک کے بعد رتّی گلی بیس کیمپ پہنچے، تو یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ یہاں لاتعداد سیّاحتی ٹینٹ، کوہ پیمائوں سے بَھرے پڑے تھے۔ جن میں زیادہ تعداد گورے سیّاحوں کی تھی۔ اس بیس کیمپ سے گرد و پیش کا نظارہ قابلِ دید تھا۔ جولائی کا مہینہ ہونے کے باوجود جگہ جگہ برف جمی تھی اور گلیشیئرز پگھل کر چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں تبدیل ہو رہے تھے۔ ماحولیاتی آلودگی نہ ہونے کی وجہ سے حدِنگاہ بہت بڑھ گئی تھی اور دُور دُور تک سرسبز پہاڑ اور میدان واضح نظر آرہے تھے۔ مختلف ممالک سے آنے والے کوہ پیما یہاں کئی کئی دنوں تک پڑائو ڈالتے ہیں۔ہم نے بھی یہاں بچھی بینچوں پرکوئی ایک گھنٹے آرام کے بعد اگلے سفر کے لیے خود کو تازہ دم کیا۔
رتّی گلی جھیل، اس بیس کیمپ سے مزید اوپر ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے، جس کا فاصلہ اگرچہ صرف دو کلومیٹر ہے، لیکن عمودی چڑھائی کے باعث عموماً سیّاح یہ فاصلہ گھوڑے پر یا پیدل طے کرتے ہیں۔ ہم بھی دوسرے سیّاحوں کی تقلید کرتے ہوئے گھوڑے پر رتّی گلی جھیل کی جاب گام زن ہو گئے۔ اس خطرناک عمودی چڑھائی پر سفر کے دوران سردی میں بھی پسینہ آگیا تھا۔ ہمارا گھوڑا اس خطرناک ٹریک پر اس طرح چل رہا تھا، جیسے کوئی حسینہ، اونچی ہیل کی سینڈل پہن کر ریمپ پر بہت احتیاط سے کیٹ واک کر رہی ہو۔ اس وقت ہمارا جو حال تھا، وہی دیگر ساتھیوں کا بھی تھا، لیکن الحمدللہ! باہمت گھوڑے بانوں نے ہمیں باحفاظت 3700 میٹر بلندی پر واقع رتّی گلی جھیل محض آدھے گھنٹے میں پہنچا دیا۔
جیسے ہی گھوڑے نے آخری چڑھائی عبور کی اورہماری نظر رتّی گلی جھیل پر پڑی، تو بے ساختہ زبان سے سبحان اللہ کی صدا بلند ہوئی، ہم کافی دیر تک آس پاس سے بے نیاز رتّی گلی جھیل کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔ زبان پر صرف ماشاء اللہ اور سبحان اللہ کا ورد جاری تھا۔ رتی گلی جھیل کا حسن ناقابلِ بیان ہے،اس کا نیلگوں پانی دور ہی سے ایک سحر ساطاری کر دیتا ہے۔ پہاڑ کی کپ نما چوٹی پر شفّاف، سبز جھیل اور جھیل کے اندر اوراس کے اطراف چھوٹے چھوٹے گلیشیئرز اپنے حُسن میں یکتا ہیں۔ اسی طرح اس پہاڑ کی چوٹی پر قدرتی نارنگی رنگ کے پھول، سورج کی زرد کرنیں، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اور فضا میں پھیلی مسحور کن خوشبوئوں کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ رتّی گلی جھیل ہمارے یادگار سفر کی آخری منزل تھی، قدرت کی اس صنّاعی سے جی بھر کر لطف اندوز ہونے کے باوجود کسی طور یہاں سے واپس جانے کو دل نہیں کر رہا تھا، لیکن جانا تو بہرحال تھا، لہٰذا بوجھل قدموں کے ساتھ یہ سوچ کر واپسی کی راہ لی کہ زندگی رہی، تو دوبارہ پھر یہاں ضرور آئیں گے۔
0 Comments