All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ایشین گیمز کے نتائج : کیا ہمیں 34ویں پوزیشن پر کوئی شرمندگی نہیں

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا تجویز کردہ 358 کھلاڑیوں اور آفیشنلز پر مشتمل دستہ نگران حکومت کی آشیرباد لیکر انڈونیشیا میں 18ویں ایشیائی کھیلوں میں اپنی کارکردگی مکمل کر چکا ہے ۔ میڈل ٹیبل پر پاکستان پیتل کے ساڑھے تین میڈلز کے ساتھ 34 ویں پوزیشن پر آیا ہے یوں ایشیائی کھیلوں میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے دستہ نے اپنی تاریخ کی سب سے شرمناک پرفارمنس دی ہے کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے 40 سے 50 کھلاڑیوں اور آفیشلز کی تجویز دی گئی تھی جن میں ہاکی، کبڈی، سکوائش کے علاوہ پانچ کھلاڑی انفرادی کھیلوں کے 5 آفیشلز کے ساتھ حصہ لینے کے اہل قرار دیئے گئے تھے ۔ لیکن پاکستان اولمپک ایسوسی اپنی ضد پر قائم رہی۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب عمران خان قوم کو بچت کا سبق دے رہے تھے اور اس وقت نگران حکومت 358 افراد کو سیر و سیاحت پر بھیج کر کروڑوں کا ٹیکہ لگا رہی تھی۔

دستہ روانگی کے ساتھ ہی ہمیشہ کی طرح کھلاڑیوں اور آفیشلز کی طرف سے اخبارات اور ٹیلیویژن چینلز پر بیانات اور دعوئوں کا سلسلہ شروع ہوا جس میں ہر ایک نے ان کھیلوں میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا مژدہ سنایا۔ بیانات کے سلسلہ میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر نے اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کھیلوں میں ان کی ترجیح تمغے نہیں بلکہ کھلاڑیوں کا تجربہ اور تربیت ہے۔
موصوف جب 2004 میں پاکستان اولمپک میں نافذ کئے گئے تو انہوں نے پہلے بیان میں فرمایا تھا کہ ان کا ٹارگٹ اولمپک 2008 بیجنگ میں گولڈ میڈل کا حصول ہے۔ اس کے بعد اولمپک گولڈ میڈل گول ہو گیا جو کہ ابھی تک گول ہے۔

کھلاڑیوں کی تربیت کا سبق دینے والے یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ایشیائی کھیل دنیا کے سب سے بڑے براعظم کے کھیل ہیں اور کوئی تعلیم بالغاں پروگرام کا حصہ نہیں۔ یہاں کھلاڑی سال ہا سال کی محنت کر کے میڈل لینے آتے ہیں۔ ان کے کھیلوں کی تنظیموں میں منتظمین چور دروازوں اور سفارشوں سے نہیں بلکہ میرٹ پر منتخب ہوتے ہیں ہارنے کے بعد ان کے کھلاڑی اور آفیشلز الٹے سیدھے اور گمراہ کن بیانات دینے کی بجائے اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہو جاتے ہیں۔ اولمپک کھیلوں میں برطانیہ کے زوال سے عروج کا سفر اور ایشیائی کھیلوں میں بھارت کے زوال و عروج کی مثال سب کے سامنے ہے۔

پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ دورے کرنے والے ملکوں میں شامل ہے حال ہی میں ہم نے بہت بڑے دستے اسلامک گیمز ، ایشین انڈور گیمز اور کامن ویلتھ گیمز میں لڈو کھیلنے کے لئے بھیجے تھے کیا ایشیائی کھیلوں میں ان کی تربیت باقی تھی۔ ہاکی چند ماہ پہلے ایک ماہ کے ہالینڈ میں کیمپ کے بعد چمپئین ٹرافی کھیلی، فٹ بال بحرین میں غیر ملکی کو چزکے زیر سایہ مہینے کے کیمپ کے بعد پریکٹس میچ کھیلی کبڈی ٹیم نے دبئی میں ٹورنامنٹ کھیلا۔ والی بال اور پہلوان بھی دوروں پر رہے کیا ابھی کوئی کمی باقی تھی ۔ 

کھلاڑیوں کی تربیت کا مشورہ دینے والے صدر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے خود تو 14 سال میں بیان دینا نہیں سیکھا تو کھلاڑیوں سے تربیت کی توقع رکھنا بالکل بے معنی لگتا ہے۔ پاکستان نے پہلی بار ایشیائی کھیلوں 1954 کے منیلا میں ہونے والے کھیلوں میں حصہ لیا تھا جہاں 46 کھلاڑیوں کے دستہ نے 5 گولڈ، 6 سلور، دو برانز ٹوٹل 13 تمغوں کے ساتھ جو تھی پوزیشن حاصل کی تھی۔ 1962 کے جکارتہ میں ہونے والے چوتھے ایشیائی کھیلوں میں 8 گولڈ، 11 سلور، اور 9 برانز ٹوٹل 28 میڈلز کے ساتھ چوتھی پوزیشن پر رہے۔

ایتھلیٹکس کے برانز میڈل جیتنے پر سیکرٹری نے فرمایا ہے کہ برائز میڈل جیت کر ہمارے ایتھلسٹ نے قوم کا سر فخر سے اونچا کر دیا ہے یوں لگتا ہے کہ سات سال کی عمر کے پاکستان کے اتھلیٹوں نے منیلا میں 4 گولڈ جیتنے تھے ان میں قوم کا سر اونچا ہونے میں کوئی کمی رہ گئی تھی جو مبارک شاہ ، غلام رازق اور عمر یونس بھی گولڈ میڈل جیت کر پوری نہ کر سکے اور وہ اب ان کے اتھلیٹ نے برانز میڈل جیت کر پوری کر دی ہے۔ جکارتہ میں موجود پاکستانی جھنڈے لیکر اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے آتے رہے لیکن وہ بھی آہستہ آہستہ آنا بند کر گئے ۔

53سالہ ٹیبل ٹینس کے کھلاڑی عاصم قریشی کا حشر ان کو تربیت کے لئے بھیجنے والے عارف حسن نے تو شاید نہیں دیکھا لیکن عوام نے گھر میں ٹیلی ویژن پر ضرور دیکھا ہے ۔ ایک سے بڑھ کر ایک دکھ کی داستان ہے۔ جاپان سے درآمد شدہ شاہ حسین کا چند سیکنڈ میں چت ہونا اس بات کی دلیل ہے امپورٹڈ کھلاڑی کے لئے ہمارا کیا طریقہ کار ہے اس کا مستقبل میں کوئی حل نکلے گا۔
ٹینس کے کیمپ جس کی ٹریننگ کوئی اور کوچ کرواتے رہے اور عین وقت پر ہمیشہ کی طرح اپنے ووٹوں سے بلیک میلنگ کرنے والا خالد رحمانی جس نے کبھی ریکٹ نہیں پکڑا سب کو سائیڈ پر کر کے مردوں اور عورتوں کی دونوں ٹیموں کا آفیسر اعلیٰ اور کوچ بن کر چلا گیا۔

ہماری تنظیموں سے اکاس بیل کی طرح چمٹے ہوئے عہدیدار خود تو اکاس بیل کی طرح پھل پھول رہے ہیں اور انہوں نے ہماری کھیلوں کے تناور درخت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے ۔ بدقسمتی سے ان سے نجات حاصل کرنے والے انکا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان جیسے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی کے ذریعہ وجود میں آنے والی حکومت کے ہوتے ہوئے اس سلسلہ کا جاری رہنا انتہائی افسوسناک ہو گا۔ جن لوگوں کے ہاتھوں قرضوں تلے دبے ملک کے کروڑوں لٹا کر ملک کو شرمناک شکستوں سے دو چار کیا جا رہا ہے اس ٹولے سے نجات حاصل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ یہ ٹولہ گزشتہ حکومتوں کی طرح اس وقت کو بھی اپنے گاڈ فادر انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی کی پابندی سے ڈرائے گا۔ انکے دوروں کو میرٹ سے منسلک کر کےان کی سیر و سیاحت بند کی جائے ۔ 

دوسرا ان کی نا اہلی کی تحقیقات کے بعد ان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ اس میں آئی او سی کا کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر وہ دخل اندازی کرے تو ان سے بات چیت کے لئے اہل لوگوں کو بھیجا جائے نہ کہ ان سے سودا بازی کرنے والے لوگوں کو بھیج کر اس گروہ کو مزید طاقتور کیا جائے۔ آخر میں گزارش کرونگا کہ ہر کھیل سے ایک اہل نمائندہ لیکر ایک انکوائری کمیٹی بنائی جائے جو ان کھیلوں میں کروڑوں کے ضیاع اور ملک کی جگ ہنسائی کرانیوالوں کے خلاف رپورٹ دے جس کے نتیجہ میں اس گروہ کے خلاف ایکشن لیکر ان سے فوری نجات حاصل کر کے اہل افراد کو سامنے لائے جا سکیں۔

آصف ڈار

بشکریہ روزنامہ جنگ


 

Post a Comment

0 Comments