شاید 1981 میں مجھے پہلی دفعہ ایک سرکاری وفد کی حیثیت سے تاشقند جانے کا موقع ملا۔ اب تو ازبکستان آزاد ملک ہے لیکن اس دور میں یہ USSR یعنی روس کا حصہ تھا۔ روس پر کمیونزم مسلط تھا اور دنیا روس کے حلقہ اثر اور امریکہ کے حلقہ اثر میں تقسیم ہو چکی تھی۔ کمیونزم اور سرمایہ دارانہ جمہوریت میں سخت لگتی تھی اور دونوں میں نفرت عروج پر تھی۔ کمیونسٹ روس میں آزادی اظہار بلکہ آزادی افکار پر کڑی پابندیاں تھیں، اختلاف رائے کی اجازت نہیں تھی، ذاتی ملکیت کا تصور ہی موجود نہیں تھا اور زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری تھی۔ اسی لئے جمہوری ممالک کے مفکرین کہتے تھے کہ روس ایسا ملک ہے جس میں لوگوں کو پنجروں میں بند رکھا جاتا ہے اور خوراک مہیا کر دی جاتی ہے۔
ملک پر فقط ایک پارٹی کی حکومت تھی اور ایک ہی اخبار چھپتا تھا جسے آپ سرکاری گزٹ کہہ سکتے ہیں۔ میں تاشقند میں ہفتہ بھر رہا ہر طرف روسی صدر کے قد آدم پورٹریٹ اور بڑی بڑی تصویریں نظر آتی تھیں اور لوگوں کے چہروں پر خوف وہراس دیکھا جا سکتا تھا۔ روسی حکومت بیرون ملک سے آنے والے وفود کے ساتھ ایک اپنا بندہ وابستہ کر دیتی تھی تاکہ گفتگو میں سہولت رہے کیونکہ وہاں صرف روسی اور مقامی زبانیں بولی جاتی تھیں جبکہ باہر سے آنے والے عام طور پر انگریزی بولتے تھے۔ میرے ساتھ تاشقند یونیورسٹی کی ایک ایم اے انگریزی کی طالبہ کی ڈیوٹی لگی تاکہ اس کی انگریزی بول چال بہتر ہو اور مجھے سرکاری تقریبات میں گفتگو کی سہولت رہے۔
یہ ساری رام کہانی آپ کو محض ایک واقعہ سنانے کے لئے بیان کی ہے۔ ہوا یوں کہ ایک روز ہم ازبکستان کے سیکرٹریٹ کے باہر ٹہل رہے تھے تو میں نے شرارتاً اس لڑکی سے پوچھا ’’تانیہ تم لٹریچر کی ا سٹوڈنٹ ہو، اخبار رسالے پڑھتی ہو، کبھی تمہیں خیال آیا کہ تمہاری حکومت یا حکمران غلط پالیسی پر کاربند ہیں‘‘۔ اس نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا’’نہیں سر ایسا کبھی نہیں ہوا‘‘۔ میں نے پوچھا کیوں؟ جواب ملا ہمارے حکمران غلطی کر ہی نہیں سکتے اس لئے اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں مسکرا کر خاموش ہو گیا اور سوچنے لگا کہ نسل در نسل آزادی افکار، آزادی اظہار اور برین واشنگ کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔
روس کے اردگرد آئرن کرٹن یعنی آہن (لوہے) کی دیواریں کھڑی کر دی گئی تھیں حتیٰ کہ باہر سے انفارمیشن بھی روس میں داخل نہیں ہو سکتی تھی۔ گویا کمیونسٹ روس دنیا کے سمندر میں ایک جزیرہ تھا جسے ہر طرف سے آہنی حصار کے اندر بند کر دیا گیا تھا کیونکہ حکمران عوام کو وفادار رعایا بنانا چاہتے تھے۔ وفادار بنانے کے لئے آزادی فکر اور آزادی اظہار کو پابند کرنا ناگزیر تھا۔ آزاد میڈیا اور آزاد پریس ذہن میں آزادی افکار کے جراثیم پیدا کرتے ہیں اور تنقیدی فکر سے اندھی وفاداری پر ضرب لگتی ہے، چنانچہ ایسے حکمران جو اندھی وفاداری کی تمنا کرتے ہیں ان کی حکمت عملی کی خشت اول آزاد پریس کا گلا گھونٹنا ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں آزاد پریس پر پہلی دفعہ قدغن ایوبی مارشل لاء کے دوران لگی جب تنقید یا اختلاف کرنے والے اخبارات کا ناطقہ بند کرنے کے لئے سرکاری اشتہارات بند کئے گئے۔ خبروں پر سنسر لگایا گیا اور باغی صحافیوں کو قلعے کی سیر کروائی گئی۔ قلعے کی سیر کے دوران اتنا ٹارچر کیا جاتا تھا کہ بعض اوقات بڑے بڑے ذہین لوگ اپنی تخلیقی صلاحیتیں کھو بیٹھتے تھے اور ذہنی مریض بن جاتے تھے۔ مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد خان خوف کی علامت تھے۔ ان کی مونچھ کا تائو خوف کی کپکپی طاری کرنے کے لئے کافی ہوتا تھا، ان کے دور میں کئی اخبار بند ہوئے، کئی اخبارات پر پابندیاں لگیں، کئی مدیران کو ڈرایا دھمکایا گیا اور ضمیر قریشی جیسے صحافی جان سے گئے۔
مقصد کمیونسٹ نظام حکومت کی مانند صرف اور صرف حکومت کی تعریف اور پبلسٹی کا حصول تھا اور اختلافی سوچ کا قلع قمع تھا۔ جنرل ضیاء الحق کا دور اس حوالے سے بدترین تھا جس میں اخبارات پر سنسر کا شکنجہ اس قدر سخت تھا کہ کتابت شدہ کالم اور خبریں اخبارات کے صفحات سے’’اکھاڑ‘‘ لی جاتی تھیں کہ ان سے اختلاف کی بو آتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور ان سے قبل جنرل ایوب خان کی حکومتیں سمجھتی تھیں کہ آزادی افکار پرپابندی لگا کر لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا جا سکتا ہے اور ان کی زبان پر تالے لگائے جا سکتے ہیں۔ دونوں جابر حکمران یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ پاکستان کوئی کمیونسٹ ملک نہیں بلکہ جمہوری اقدار کا وارث ہے اور یہاں کے عوام نے انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں توڑی ہیں اس لئے اب وہ کبھی بھی ذہنی غلامی کی زنجیریں برداشت نہیں کریں گے۔ آزادی افکار پاکستان کے عوام کی سرشت میں شامل ہے چنانچہ وہ پابندیوں کے باوجود اپنا راستہ بنا لیں گے۔ ان پابندیوں سے محض حکمرانوں کے خلاف نفرت کا ایسا لاوا پکے گا جو ایک دن ان کو بہا کر لے جائے گا۔
اس حوالے سے جنرل مشرف نے ذہنی بلوغت کا ثبوت دیا اور آزادی اظہار کے راستے میں دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے بااثر مدیروں اور صحافیوں سے گفتگو اور سمجھوتے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ٹی وی چینلز مشرف دور کا کارنامہ ہے، مختصر یہ کہ اب ہم آزادی افکار اور آزادی اظہار کی شاہراہ پر سفر کر کے اتنا آگے آچکے ہیں کہ اگر کوئی ہمیں روکنے کی کوشش کرے یا ہماری راہ میں روڑے اٹکائے یا ہماری مرضی پر قدغن لگائے تو سمجھ لے کہ ناکامی، بدنامی اور نفرت اس کا مقدر ہے، موجودہ آزاد، جمہوری اور سائنسی دور میں وہ اپنے ارادوں میں تو کامیاب نہیں ہو سکے گا البتہ اپنے لئے محبت کو نفرت میں بدلنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا۔ میرے نزدیک اس طرح کی طفلانہ حرکت محض ناسمجھی اور بےعقلی ہے اور قومی اداروں کے تقدس و احترام پر ضرب لگانے کی سازش ہے۔
آپ پوچھیں گے کہ میں عام روش سے ہٹ کر آج کس راہ پر چل نکلا ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ آج میں رنجیدہ اور ڈپیرس Depress ہوں کیونکہ زندگی میں پہلی بار مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ میں ایک آزاد جمہوری ملک کا شہری نہیں بلکہ کسی کی رعایا ہوں۔ میں ڈی ایچ اے لاہور کا رہائشی ہوں، یہ آبادی لاکھوں شہریوں پر مشتمل ہے جنہوں نے کروڑوں اربوں سے یہاں گھر بنائے یا خریدے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ڈی ایچ اے نہ چھائونی ہے نہ کوئی فوجی آبادی۔ میری زندگی میں پہلی بار پرسوں مجھے اخبارات نہیں ملے کیونکہ ہاکروں کو ڈی ایچ اے میں اخبارات تقسیم کرنے نہیں دئیے گئے۔ کل سے جو اخبارات ملنا شروع ہوئے ہیں ان میں میرے پسندیدہ اخبارات کا داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔ پسندیدہ چینل کو ٹی وی کیبل سے ہٹا دیا گیا ہے۔ مجھے میرے بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا ہے جس کا نوٹس سپریم کورٹ کو لینا چاہئے۔ زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ میں ملک کا آزاد شہری نہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ ایسی حرکات سے فوج کے مقدس نام پر حرف آئے گا۔
0 Comments