مغل فن تعمیر

مغل خاندان نے برصغیر پاک و ہند کو فن تعمیر کے جو نوادرات دیے ہیں اس کی مثال شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملے۔ انہوں نے برصغیر، ترک، ایرانی اور مختلف علاقوں کے فن تعمیر کے امتزاج سے انتہائی حسین عمارتیں تعمیر کیں۔ ہمایوں کا مقبرہ سولہویں صدی میں تعمیر ہوا۔ اسی سے مغل فن تعمیر کی باقاعدہ ابتدا ہوتی ہے۔ یہ سرخ پتھر اور سنگ مرمر سے بنا ہے لیکن اس پر ایرانی فن تعمیر غالب ہے۔ آگرہ کا لال قلعہ اور فتح پور سیکری شہنشاہ اکبر کے ذوق تعمیر کے نمونے ہیں۔ لال قلعہ کے اندر محلات کا سلسلہ ہے۔ ایک نہایت حسین مسجد بھی ہے اور ان سب کے اطراف سرخ پتھر کی بنی ایک بہت اونچی فصیل ہے جس کے اطراف میں خندق ہے۔ قلعے کے اندر جانے کے لیے بہت بڑے بڑے پھاٹک بنے ہیں۔ اس کے اندر کی عمارتوں میں جہانگیر اور پھر شاہجہان نے اضافے کیے۔ 

شہنشاہ اکبر کے ذوق تعمیر کا مکمل نمونہ فتح پور سیکری ہے جسے وہ اپنا پایۂ تخت بنانا چاہتا تھا لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے اسے بن بسائے چھوڑنا پڑا۔ اس میں ایک عظیم جامع مسجد ہے جس کے داخلے پر بلند دروازہ ہے جو اپنی بلندی اور شوکت میں جواب نہیں رکھتا۔ یہ عمارت مغل دور کی اعلیٰ ترین عمارتوں میں سے ہے۔ اس کے اندر سب سے خوبصورت محل جودھا بائی کا ہے جس پر برصغیر کے روایتی فن تعمیر کی گہری چھاپ ہے۔ ویسے پنچ محل، دیوان عام، دیوان خاص سب ہی برصغیر، ترک و ایرانی فن تعمیر کے امتزاج کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ ان سب عمارتوں میں کمانیں بہت کم استعمال ہوئیں۔ جہانگیر نے اکبر کا مقبرہ 1613ء میں سکندرہ میں تعمیر کروایا۔ یہ نہایت عالی شان اور نئے ڈیزائن کا ہے۔ جہانگیر کے زمانے میں عمارتیں زیادہ نہیں بنیں۔ کچھ لاہور میں ہیں۔ ایک نادر عمارت اس کے خسر اعتماد الدولہ کا آگرہ میں مقبرہ ہے۔ یہ چھوٹا سا مقبرہ اپنے حسن اور نزاکت میں جواب نہیں رکھتا۔ 

مغل شہنشاہوں میں تعمیری ذوق میں شاہجہاں کو کوئی اور نہ پہنچ سکا۔ دلی کا لال قلعہ اسی کا بنوایا ہوا ہے، جس میں شاندار دیوان عام بھی ہے۔ اس کی چھت سپاٹ ہے اور نوکدار کمانوں پر کھڑی ہے۔ اس کے علاوہ دیوان خاص اور دوسری عمارتوں میں منبت کاری کا خوبصورت کام ہے۔ دلی کی جامع مسجد بھی اسی کی بنوائی ہوئی ہے جس کا شمار برصغیر کی خوبصورت ترین مساجد میں ہوتا ہے۔ دیگر عمارتوں میں سب سے خوبصورت تاج محل خیال کیا جاتا ہے جو اس نے اپنی ملکہ ممتاز محل کے لیے بنوایا تھا۔ یہ عمارت دنیا کی حسین ترین عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ عمارت اتنی عظیم ہونے کے باوجود نہایت متناسب اور خوبصورت ہے۔ پورا مقبرہ ایک اونچے چبوترے پر سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اور اوپر بہت بڑا گنبد ہے۔ چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔

مقبرے کے اندر ممتاز محل کے برابر شاہجہان بھی دفن ہیں اور قبروں کی چاروں طرف انتہائی نازک سنگ مر مر کی جالی ہے۔ مقبرے پر جگہ جگہ قرآن مجید کی آیتیں بڑی خوبصورتی سے پتھروں پر لکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ رنگ برنگ کے پتھروں اور سنگ مرمر کے نہایت خوبصورت گل بوٹے اور شکلیں بنائی گئی ہیں۔ خوبصورت باغ اور فوارے ہیں۔ پوری عمارت بنیادی طور پر ایرانی رنگ کی ہے لیکن اس کے اندر برصغیر کے فن تعمیر کو نہایت خوبصورتی سے سمویا گیا ہے۔ خاص طور پر چھجوں اور برجوں کے ڈیزائن اور منبت کاری وغیرہ۔ اس کے علاوہ شاہجہان کے دور حکومت میں دو اور خوبصورت مسجدیں موتی مسجد اور جامع مسجد آگرہ بھی تعمیر ہوئیں۔ شاہجہاں کا دور حکمرانی فن تعمیر کے لحاظ سے مغلیہ دور کا عہد زریں تھا۔ اورنگ زیب کے دور میں اورنگ آباد میں مقبرہ رابعہ الدورانی، لاہور کی بادشاہی مسجد اور لال قلعہ دلی کی موتی مسجد تعمیر ہوئی۔ مغلیہ دور کی آخری اہم عمارت دلی میں صفدر جنگ کا مقبرہ ہے۔

وردہ بلوچ


 

Post a Comment