All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

فلسطينيوں کے تحفظ کے ليے قرارداد، امريکا کو نامنظور

امریکا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کویت کی جانب سے پیش ہونے والی اس قرارداد کو ویٹو کر دے گا، جس کے مسودے میں غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ کویت کی جانب سے قرارداد کا متن سکیورٹی کونسل میں پیش کیا گیا تھا۔ اس مسودے میں فلسطینیوں کے لیے ایک بین الاقوامی تحفظ مشن بنائے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سال مارچ کے اختتام سے اب تک اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے 122 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہیلی کا کہنا ہے کہ امریکا یقیناً اس قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔ گزشتہ برس دسمبر میں ہیلی نے اس قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا تھا، جس میں صدر ٹرمپ کے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فيصلے کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس قرارداد کی بقيہ ديگر ملکوں نے حمايت کی تھی۔

سکیورٹی کونسل کئی ہفتوں سے غزہ پٹی میں تشدد کے حوالے سے کوئی بھی ردعمل دینے میں ناکام رہی ہے حالاںکہ اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے ليے مندوب کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ بحران جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ ہیلی نے اس موقع پر یورپی ممالک سے بھی کہا کہ اگر انہوں نے اس قرارداد کی حمایت کی تو وہ یہ ثابت کر دیں گے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرپا مذاکراتی عمل کی حمایت نہیں کرتے۔ تازہ لڑائی اور کشيدگی کو سن 2014 کے بعد دونوں فریقين کے مابين سب سے شدید کشیدگی کہا جا رہا ہے۔ سفارتکاروں کا کہنا کہ اگر فلسطینی سکیورٹی کونسل کی سطح پر یہ قرارداد منظور کرانے میں ناکام رہے تووہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جا سکتے ہیں۔

کویت کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کو منظور کرانے کے لیے سکیورٹی کونسل کے پندرہ رکن ممالک میں سے نو کے ووٹ درکار ہوں گے جبکہ پانچ مستقل ارکان کی طرف سے ایک بھی ویٹو نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ ہی کے حوالے سے امريکی صدر ٹرمپ اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر ڈيوڈ فريڈمين کو اب اس لیے زیادہ اختیارات دینے پر غور کر رہے ہیں تاکہ فلسطينیوں سے متعلق امور کے ليے مخصوص امریکی قونصل خانے کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں یروشلم میں امریکی قونصل جنرل، جو براہ راست فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات اور ان کے امور کے ذمے دار ہیں، کی خود مختاری کو کم کرنے کی ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ سوچ کافی زیادہ علامتی اہمیت کی حامل ہے۔ ایسا کرنے سے مستقبل میں فلسطینیوں کی اپنی ایک الگ ریاست کے قیام کے خواب کو مزید دھچکا لگے گا۔

ب ج/ ع س (نیوز ایجنسیاں)

بشکریہ DW اردو
 

Post a Comment

0 Comments