اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ لوگ اپنے فون اور کمپیوٹر کی سکرین کی طرف بار بار اور بہت زیادہ دیکھتے ہیں۔ دراصل ایک تحقیق کے مطابق امریکا میں اوسطاً ایک بالغ ہفتے میں ساڑھے پانچ گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارتا ہے۔ اس کا مطلب ہے سال میں 12 دن۔ اگر آپ کو اس امر سے حیرت نہیں ہوتی تو جان لیجیے کہ آپ سمیت بہت سے لوگ سوشل میڈیا کے نشے کا شکار ہیں۔ لائیک، کومنٹ اور ری ٹویٹ کی صورت جو میں سکون آپ پاتے ہیں وہ آپ کے دماغ کو فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام کی طرف کھینچتا ہے۔
اگر آپ اس نشے کے بارے میں اپنا امتحان لینا چاہتے ہیں تو اپنے آپ سے پوچھیے: کیا سوشل میڈیا آپ کو آپ کے سب سے ضروری کام سے روکتا ہے، کیا یہ صلاحیتوں کے اظہار کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہا ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ سوشل میڈیا کے مرض نے آپ کو شکست دے رکھی ہے۔ کسی بری عادت کا حل یہ ہے کہ اسے اچھی عادت سے بدل دیا جائے۔ ذیل میں وہ اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جو سوشل میڈیا کے نشے میں گرفتار کسی فرد کو چھٹکارہ دلانے میں مفید ثابت ہوں گے۔ ۱۔ ’’کیوں‘‘ کی تلاش : خود سے سوال کیجیے: آپ آخر انسٹاگرام اور فیس بک کھولتے کیوں ہیں؟ کیا اس کا جواب ہے، ’’کوئی وجہ نہیں، میں بس انسٹاگرام کی فیڈ کو سکرول کرنا پسند کرتا ہوں‘‘؟
اگر ایسا ہے تو اپنے محرک پر گہرائی سے غور کیجیے۔ یہ دیکھیے کہ کیا یہ آپ کے کام کو بور کر دیتا ہے، آپ اس کے لیے ذہنی دباؤ محسوس کرتے ہیں یا اس کے باعث خود کو بیرونی دنیا سے کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں؟ پہلا قدم آپ کی اس ضرورت کو پہچاننا ہے جو آپ کو سکرین کی طرف دیکھنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ ۲۔ دوری: دوسرا قدم اٹھاتے ہوئے تین چار طریقے اپنانے پڑیں گے جو سوشل میڈیا سے دوری میں معاون ہوں گے۔ ان میں سوشل میڈیا ایپس کو ڈیلیٹ کرنا، کمپیوٹر پر نیوز فیڈ بُلاکر استعمال کرنا، اپنے بیڈروم سے فون اور کمپیوٹر کو دور رکھنا شامل ہے۔
یاد رکھیے سوشل میڈیا کونشہ بنانے کے لیے دنیا کے بہترین دماغوں میں سے چند نے خوب محنت کر رکھی ہے۔ اس سے چھٹکارے کا فیصلہ کرنا اور پھر قدم اٹھانا آسان نہیں۔ اس کے لیے خاصی ہمت کی ضرورت ہے تاکہ اپنے حقیقی کاموں کی طرف متوجہ ہوا جا سکے۔ ۳۔ متبادل : تیسرا قدم یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو چیک کرنے کی روٹین کو ایک نئی روٹین سے بدل دیں۔ ایسا کرتے ہوئے آپ کو خیال آتا ہے کہ اب تو ’’میں بور ہونے لگا ہوں‘‘ یا ’’میرا ذہن بار بار وہی کچھ کرنے کو چاہ رہا ہے۔‘‘ لیکن آپ اس طرح کے احساسات کو کسی مثبت اور پیداواری کام میں بدل سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر فیصلہ کریں کہ جب میں کام کے دوران بور ہوں گا تو چند قدم چل لوں گا، یا جب میں ذہنی دباؤ میں مبتلا ہوں گا تو تین منٹ کے لیے گہرے سانس لوں گا۔ اگر آپ اپنے دماغ کو ایسے کاموں کی جانب راغب کر لیں گے تو سوشل میڈیا کی طلب کم ہو جائے گی۔ ۴۔ احتساب : چوتھا قدم نئی عادتوں کو بار بار دہرانا ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب لوگ ہار جاتے ہیں کیونکہ اس کے لیے خاصے ہمت و حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ نظم و ضبط کو خود ہی کرنے کی بجائے اسے کسی دوسرے کے حوالے کر دیں تو بہتر ہے۔
دوسرا آپ کو زیادہ اچھا کنٹرول کر سکتا ہے۔ کسی دوست کی خدمات حاصل کریں یا کوئی کوچ رکھیں جو آپ کا احتساب کرے کہ آپ نے جو فیصلے کیے تھے ان پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔ یعنی آپ سوشل میڈیا سے دوری کی جانب گامزن ہیں یا نہیں۔ اس کا ایک فوری حل احتساب کرنے والی ایپ کا استعمال ہے۔ ایک معروف کمپنی نے ’’اکاؤنٹی بیلٹی ایپ‘‘ بنائی ہے۔ اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ۵۔ انعام: پانچواں قدم یہ ہے کہ اپنے دماغ کو انعام دے کر خوش کریں۔ جب آپ اپنی نئی عادات پر اچھی طرح عمل کر رہے ہوں تو اسے اس کا صلہ ملنا چاہیے۔ نئی عادات کو اپنانا تشدد سہنے کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔
نئی عادات کو مضبوط بنانے کے لیے، چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر خود کو صلہ دیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک گھنٹے سے سوشل میڈیا سے دور ہیں، تو دس منٹ کے لیے بطور انعام وہ کچھ کریں جو آپ کو پسند ہے اور جسے کرنے سے آپ کو خوشی ہوتی ہے۔ اگر آپ پورا دن سوشل میڈیا سے دور رہتے ہیں تو آپ شام کا ایک گھنٹہ اپنی مرضی سے گزاریں۔ اپنی ذات پر دیگر کئی نوازشیں کی جا سکتی ہیں۔ نئی عادات اپنا کر آپ پراگندہ خیالی کی زنجیروں اور وقت کے زیاں سے نکل آئیں گے۔
0 Comments